ضم اضلاع میں پولیسنگ نظام ناگزیر تھا‘ثناءاللہ عباسی

قبائلی اضلاع مےں منشےا ت و اسلحہ کی کھلے عام فروخت ہوتی تھی ہر علاقہ مےں اپنی مرضی کا قانون تھا‘اب وہاں پولےس نہ صرف باقاعدہ گشت کرتی ہے بلکہ قتل سمےت دےگر جرائم کی وارداتوں کی رو ک تھام کے ساتھ ساتھ باقاعدہ اےف آئی آرز بھی درج کرتی ہے


قبائلی اضلاع کے خےبر پختونخوا مےں ضم ہونے کے بعددےگر شعبوں کی طرح وہا ں پر امن وامان کی ذمہ داری محکمہ پولےس کے سپرد ہوگئی ہے‘ ان اضلاع مےں پائےدار امن اور حکومتی رٹ کی عملداری کےلئے دےگر فورسز کے ساتھ پولےس کی ذمہ دارےوں مےں بھی اضافہ ہوگےا ‘پولےس اےکٹ 2017ءکے تحت خےبر پختونخوا مےں محکمہ پولےس خودمختار ادارہ بن چکاہے‘ قبائلی اضلاع مےں پولےس فورسز کی تعےناتی سمےت دےگر اہم امور پر بےک وقت فرائض انجام دےنے والے خےبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع پولےس کے سربراہ ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی کے ساتھ خصوصی نشست کا اہتمام کےاگےا ان سے ہونےوالی بات چےت کا احوال سوال و جواب کی صورت میں نذر قارئےن ہے۔
آج:آپ خےبر پختونخوا کےساتھ قبائلی اضلاع مےں بھی پولےسنگ کے سربراہ ہےں ےہ بتائےں ان اضلاع مےں پولےس کی عمل داری کےلئے کےا اقدامات اٹھائے گئے ہےں ؟
ثناءاللہ عباسی : خےبر پختونخوا مےں ضم ہونےوالے قبائلی اضلاع مےںپولیس نظام کافی فعال ہوگیا ہے آئے روز جرائم پےشہ عناصر کےخلاف کاروائےاں ¾ منشےات کی سمگلنگ کی روک تھام سمےت کئی دیگر اقدامات کئے جا رہے ہیں‘ اس کے علاوہ ابتدائی مرحلے مےں 26ہزار لیویز اور خاصہ دار فورس کو پولےس مےں ضم کےاگےا ہے جبکہ دوسرے مرحلے مےں اڑھائی ہزار کے قرےب شامل ہونگے لیویز اور خاصہ دار فورس کی تنخواہ 18ہزار سے بڑھ کر 28 ہزار روپے ہوگئی ہے‘ ضم شدہ اضلاع میں ہزاروں کی تعداد میں پولیس کے مختلف رینک میں بھرتی کی جائےگی لیویز اور خاصہ دار فورس کے غیر یا کم تعلیم یافتہ اور عمر رسیدہ اہلکاروں کے بدلے انہی کے خاندان کے اہل اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھرتی کےاجائےگا شہید پیکج سابقہ قبائلی اضلاع میں گریڈ ایک سے 16 تک 70لاکھ کا اضافہ ¾گریڈ 17 میں ایک کروڑروپے ¾گریڈ 18 اور 19 میں ایک کروڑ 10لاکھ روپے کا اضافہ کےاجائےگا اس کے علاوہ ہماری دو تبدیلیاں ہوئی ہیں اس کا پہلا فیز مکمل ہوچکا ہے جب دوسرے فےز کی تےاری شروع کی تو کورونا وائرس پھےل گےا ہے جس کی وجہ سے ٹریننگ ادھوری رہ گئی ہمارا ارادہ تھا کہ ٹریننگ15مئی کو شروع کر دینگے لیکن کورونا کی وجہ سے اب کوشش ہوگی کہ ٹرےننگ کا عمل 15جون کے بعد آرمی کے ساتھ مل شروع کریں‘ اسلحہ سمےت دےگر آلات کی خرےداری کےلئے حکومت نے فنڈز دےئے ہےں‘ اس کے علاوہ 25 تھانے تعمےر کئے جائےں گے جن مےں 7تھانوں کو جلد تعمےر کرنے کےلئے حکومت سے رابطہ کےاگےا ہے ہاں ےہ بات ضرور ہے کہ ہمےں تھانوںکےلئے عمارتوں کےلئے کافی مشکلات درپےش ہےں کےونکہ اراضی کی خرےداری اور نشاندہی کا عمل انتہائی پےچےدہ عمل ہے لےکن ہم نے حکومت کو نشاندہی کرا دی ہے اور آرمی کے توسط سے ےا اوپن ٹےنڈر کرکے کام کا آغاز کےاجائے گا۔
آج:قبائلی علاقوں کے صوبے مےں ضم ہونے کے اوائل مےں قبائلی عوام نے ان علاقوں مےں پولےسنگ نظام کو خوش آئند قرار دےا تھا تاہم اب وہ اس نظام پر اپنے کچھ تحفظات کا اظہار کررہے ہےں‘اس کی کےا وجہ ہے ؟
ثناءاللہ عباسی :دےکھےں جی ! مےرے خےال مےں مخالفت نہےں ہونی چاہئے بلکہ مےں تو کہتا ہوں قبائلی اضلاع مےں پولےسنگ نظام کو پہلے ہی لانا چاہئے تھا کےاآپ کو معلوم نہےں کہ قبائلی اضلاع مےں منشےات ¾ اسلحہ کھلے عام فروخت ہوتا تھا جرگہ سسٹم تھا ‘ ہر علاقہ مےں اپنی مرضی کا قانون ہوتا تھا لےکن اب ےہ نہےں چلے گا اب وہاں پولےس نہ صرف باقاعدہ گشت کرتی ہے بلکہ قتل سمےت دےگر جرائم کی وارداتوں کی رو ک تھام کے ساتھ ساتھ باقاعدہ اےف آئی آرز بھی درج کرتی ہے اور اےف آئی آر کا اندراج بھی ہوچکا ہے مےرے خےال مےں وہاں کے لوگ اب اس نظام سے بہت خوش ہےں‘ آنے والے وقتوں مےں ضم اضلاع کا صوبے مےں ضم ہونے کا فائدہ نظر آئے گا ۔
آج:سی پےک مےں خےبر پختونخوا پولےس فورس کابھرتی کوٹہ شامل ہے اب تو قبائلی اضلاع بھی صوبے کا حصہ ہےں کےا اس کوٹہ مےں قبائل شامل ہےں ؟
ثناءاللہ عباسی: جی ہاں بالکل !چین پاکستان راہداری کا منصوبہ (CPEC) میں صوبہ خیبر پختونخوا کی فورس کی بھرتی میں ضم شدہ قبائلی اضلاع کا کوٹہ شامل ہے ا س سے وہاں پر ہزاروں کی تعداد میں بے روزگار نوجوانوں کو پولیس فورس کے مختلف رینک میں ملازمت کے نادر مواقع میسر آجائیں گے ہم نے پہلے فےز مےں صوبے کے 450 اہلکاروں کو سی پےک مےں شامل کےا جن کی ٹرےننگ بھی چل رہی تھی لےکن کورونا وائرس کی وجہ سے ٹرےننگ کا عمل متاثر ہوا اورپھر مجبوراً ٹرےننگ سےشن روکنا پڑا دوسرے فےز مےں تقرےباً 5 ہزار کے قرےب افراد کو بھرتی کےا جائےگا
آج:دہشتگردی کے بعد خےبر پختونخوا پولےس فورس عالمی وباء”کورونا “ کےخلاف بھی جنگ مےں فرنٹ لائن کا کردار ادا کررہی ہے اب تک کتنے جوان شہےد اور متاثرہوئے کےا محکمہ کی جانب سے کوئی امداد ملے گی ؟
ثنا ءاللہ عباسی : جی بالکل ! ہمارے افسران اور جوان اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغےر کورونا وائرس کےخلاف جنگ لڑ رہے ہےں اور اس وائرس سے ہمارے دو جوان شہےد جبکہ 40 کے قرےب متاثر ہوئے ہےں جن مےں بےشتر صحت ےاب ہوچکے ہےں اس کے علاوہ محکمہ کی جانب سے کورونا وائرس سے شہےد اہلکاروں کو ” شہداءپےکج “ اور ان اہلکاروں کوبےسک پے دےنے کا فےصلہ کےاگےا ہے جس کےلئے صوبائی حکومت کو مراسلہ ارسال کردےاگےا ہے صوبائی حکومت سے فرنٹ لائن کردار ادا کرنےوالے تمام محکموں کےلئے پہلے بھی اےک اضافی تنخواہ دےنے کا اعلان کےا ہے پولیس چونکہ ہر محاذ پر فرنٹ لائن پر کام سرانجام دیتی ہے تو اس کا حق بنتا ہے۔
آج:خےبر پختونخوا کا بجٹ آنےو الا ہے محکمہ پولےس نے اپنی طرف سے کوئی ڈےمانڈ پےش کی ہے اور کتنا فنڈ مانگا ہے ؟
ثناءاللہ عباسی :صوبائی حکومت سے رابطہ کےاگےاہے کہ محکمہ پولےس کے بجٹ پر کٹ نہ لگاےا جائے بلکہ ہمےں تو مزےد بجٹ کی ضرورت ہے کےونکہ ہم محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی ) اور سپےشل برانچ مےں اصلاحات لا رہے ہےں بلکہ کافی حد تک پےشرفت بھی ہوچکی ہے اس کے علاوہ صوبائی حکومت کو اےک سالہ پلان دےاگےا ہے جس مےں تھانوں کےلئے نئی عمارتوں کی تعمےر ¾ خستہ ہال عمارتوں کی مرمت ¾ رہائش کا مناسب انتظام سمےت فلاح و بہبود کے کئی منصوبے شامل ہےں‘ اس کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کو تجوےز دی گئی ہے کہ گرے اےرےا ختم کرکے ملاکنڈ لےوےز کو بھی پولےس مےں ضم کےاجائے جیسے کہ قبائلی اضلاع کی لیویز کو ختم کیاگےا اور ساتھ ساتھ نان کسٹم پےڈ گاڑےوں کا سلسلہ ختم کےاجائےگا مےرے خےال مےں صوبہ بھر مےں اےک ہی قانون ہونا چاہئے
آج :کےا پولےس مےںمزےد نئی اصلاحات لائی جارہی ہےں؟
ثناءاللہ عباسی : جی ہاں خےبر پختونخوا پولےس مےں مزےد نکھار پےداکرنے کےلئے اصلاحات لائی جارہی ہےںسب سے پہلے تو مےں نے اپنے اختےارات کو نچلی سطح پر منتقل کےا اور تقرری و تبادلوں کا عمل شفاف بنانے کےلئے اےڈےشنل آئی جی ہےڈ کوارٹر کی سربراہی مےں اےک آزاد اور خود مختار کمےٹی بنائی گئی اس کے علاوہ کئی شعبوں مےں بہتری لانے کےلئے ہوم ورک شروع کےاگےا ۔
آج:خےبر پختونخو پولےس کا تفتےشی نظام انتہائی ناقص ہے‘کےا اس نظام کی بہتری کےلئے اصلاحات کی ضرورت نہےں ؟
ثناءاللہ عباسی :مےری ذاتی طور پر تمام تر توجہ شعبہ تفتےش پر ہے کےونکہ جب تک تفتےشی نظام درست نہےں ہوگا مظلوم کو انصاف اور ظالم کوسزا نہےں مل سکتی اس لئے تفتےشی نظام مےں بہتری لانے کےلئے اےک لائحہ عمل طے کےاگےا ہے آپ کو معلوم ہے کہ باہر کے ممالک مےں دہشتگردی کے اےک کےس کی تفتےش کےلئے تقرےباً ڈےڑھ کروڑ روپے دےئے جاتے ہےں جبکہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے اےک کےس کی قےمت صرف 600 روپے ہے وسائل دستےاب ہونگے تو تفتےش بھی اچھی ہوگی اس لئے خےبرپختونخوا پولےس نے شعبہ تفتےش کےلئے حکومت سے رابطہ کےا ہے اور اصلاحات کےلئے اےک کمےٹی بھی بنائی گئی ہے جس کے سربراہ اےڈےشنل آئی جی ہےں۔
آج : پشاور میں سٹریٹ کرائمز، اغواءبرائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری جیسے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ان پر قابو کیسے پایا جاسکتا ہے اور کون سے گروہ ملوث ہیں؟
ثناءاللہ عباسی :اللہ کے فضل سے خیبر پختونخوا میں بالعموم اور پشاور میں بالخصوص اغواءبرائے تاوان کا 100فیصد قلع قمع کیا گیا جبکہ ٹارگٹ کلنگ میں88 فیصد اور بھتہ خور ی میں 84 فیصد کمی آچکی ہے
آج :تبدیلی لانے والی حکومت صوبے مےں پہلے بھی5 سال مکمل کرچکی ہے اب دوبارہ ان کی حکومت ہے پولےس مےں کس حد تک تبدیلی آئی ہے اور کرپشن کس حد تک ختم ہوئی ؟
ثناءاللہ عباسی:خیبر پختونخوا پولیس میں بدعنوانی اور لاقانونیت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے جبکہ پولیس میں مسلسل سزا و جزاءکا عمل بھی جاری ہے حال ہی سمگلنگ مےں ملوث121کے قرےب افسران او اہلکاروں کو فارغ کےاگےا اس کے علاوہ ضلع خےبر کی چےک پوسٹوں پر کرپشن کرنےوالے 17 اہلکاروں کو گھر بھےجا گےا‘ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں جتنے کرپٹ افسران اور ااہلکار شامل تھے انہےں نوکرےوں سے ہاتھ دھونا پڑاتقریباً1600 کے قریب گاڑےاں جو پولےس افسران ¾ اہلکاروں اور ان کے رشتہ داروں کے پاس تھیں واپس لے کر کسٹم کے حوالے کی گئیں یہ سزا و جزا کا نظام چلتا رہتا ہے میرے خیال میں پولیس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے اور ±ان کی عزت کی جائے۔
آج :دہشت گردی سے نمٹنے اور پولیس کی تربیت کےلئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں؟
ثناءاللہ عباسی : دہشتگردی کی روک تھام کےلئے محکمہ انسداد دہشگردی کو مزےد فعال بنارہے ہےں حال ہی مےں سوات ¾مردان سمےت کئی علاقوں مےں دہشتگردوں کو پکڑا گےا کئی دہشتگرد مارے گئے اس کے علاوہ 32 آرآر اےف پلاٹونز کو تربےت دی جارہی ہے جو قبائلی اضلاع مےں فوج کے انخلاءکے بعد کنٹرول سنبھالےں گی اس طرح ٹارگٹ ہارڈننگ، موک ایکسرسائز، مکان اور سرائے ایکٹ، شیڈول فور، SVEP ایکٹ کے نفاذ سے دہشت گردی کے واقعات پر قابو پاےاگےا ہے ‘جہاں تک تربےت کی بات ہے تو سپیشلائزڈ سکولز جیسے سکول آف انفارمیشن ٹیکنالوجی پولیس لائنزپشاور،سکول آف انوسٹی گیشن حیات آباد، سکول آف ٹیکٹکس حیات آباد، سکول آف پبلک ڈیس آرڈر اینڈ رائیٹ مےنجمنٹ مردان، سکول آف ایکسپلوزیو ہینڈلنگ نوشہرہ، سکول آف انٹیلی جنس ایبٹ آباد اور سکول آف ایلیٹ ٹریننگ نوشہرہ جبکہ ریپڈ رسپانس فورس اور سپیشل کمبیٹ یونٹ جیسے اقدامات بھی اس حوالے سے قابل ذکر ہیںان سکولوں میں مجموعی طور پر20ہزار سے زائد افسرا ن اور جوانوں کو تربےت دےکر فارغ کےاگےا جو اب پیشہ ورانہ انداز سے اپنی کارکردگی کا لوہا منوا رہے ہیں۔
آج : تھانوں کی خستہ ہال عمارتیں اور رہائش انتہائی ابتر ہے اس کے لئے کیا اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں؟
ثناءاللہ عباسی :اس حوالے سے کام جاری ہے بہت سے تھانوں کو ماڈل پولیس اسٹیشن میں بدلا جاچکا ہے اور باقی ماندہ بہت جلد ماڈل پولیس اسٹیشنز میں تبدیل ہو جائینگے حالیہ 32 بم پروف چو کےوں کی تعمےر سے پولےس عمارتوں کو محفوظ بناےاگےا اسکے علاوہ خستہ ہال عمارتوں کی مرمت کےلئے صوبائی حکومت فنڈ دے گی جس کے بعد کام کا آغاز کرےنگے جبکہ اےک سالہ پلان مےں بھی رہائش ¾ خوراک اورجوانوں کو دےگر سہولےات کی فراہمی کے منصوبے شامل ہےں ۔
آج:آن لائن ایف آئی آر کا اجراءکیا گیا مگر اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آرہے ‘کیا وجہ ہے؟
ثناءاللہ عباسی: میری ذاتی کوشش ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ ہو کچھ علاقوں میں اس پر عملدآمد شروع ہو چکا ہے مگر کوشش یہی ہے کہ اسے مزید وسیع تر کیا جائے اس سے بہت فائدہ ہوگا۔
آج:اوورسےز پاکستانےوں کی خےبرپختونخوا مےں جائےدادےں ہےں ان پر قبضہ مافےا کی کاروائےاں بڑھتی جارہی ہےں روک تھام کےلئے کےا اقدامات اٹھائے گئے؟
ثناءاللہ عباسی :پشاور سمےت صوبہ بھر مےں اوورسےز پاکستانےوں کی جائےدادوں کو قبضہ مافےا سے واگزاراور تحفظ کو ےقےنی بنانے سمےت دےگر مسائل کے فوری حل کےلئے پولےس ”پورٹل سروس “ شروع کرنے کا فےصلہ کےاگےا جس کےلئے ہوم ورک شروع کردےاگےا ہے کےونکہ اوور سےز پاکستانےوں کی جائےدادوں پر قبضہ کرنے کی شکاےات موصول ہورہی ہےں جس کانوٹس لےتے ہوئے جائےدادےں قبضہ مافےا سے واگزار کرنے اور تحفظ کو ےقےنی کےلئے خےبرپختونخوا پولےس پورٹل سروس شروع کرنے کا فےصلہ کےاگےا ہے تاکہ پورٹل کے ذرےعے ملنے والی شکاےات کا فوری ازالہ اور کاروائی عمل مےں لائی جاسکے اس حوالے سے آئی ٹی ڈےپارنمنٹ سے رپورٹ بھی طلب کرلی گئی ہے ۔
آج : خواتین کی شکایت کے لئے علیحدہ کاﺅنٹر بنا نیکی بات کہاں پہنچی ہے ویمن پولیس اسٹیشن کیسے فعال ہونگے؟
ثناءاللہ عباسی :خواتےن کی شکاےات اور اس کے فوری ازالے کےلئے پشاور سمےت 6 اضلاع مےں ماڈل شکاےات ڈےسک قائم کئے جارہے ہےں جس کی وہ خود براہ راست نگرانی کرےنگے اس کے علاوہ ابتدائی طور پر صوبہ بھر میں تقریباً 61 تھانوں میں خواتین کےلئے علیحدہ ڈیسک قائم کئے گئے خواتین ڈیسک کے قیام سے پختون معاشرے کی مائیں، بہنیں ، بیٹیاں اپنے مسائل خاتون پولیس اہلکارکو اچھے طریقے سے سمجھاسکتی ہیں اور خاتون اہلکارہی انکی شکایات کا بروقت اور درست طور پرادراک کرسکتی ہےں‘ تمام ماڈل پولیس اسٹےشنز یعنی فقیر آباد، گلبہار ، ٹاون ، حیات آباد، شرقی ، غربی ، کوتوالی اور چمکنی میںخواتین ڈیسک قائم ہےں جبکہ باقی ماندہ تھانوں مےں بھی خواتین کےلئے جلد وومن ڈیسک کا قیام عمل مےں لاےا جائےگا۔
آج: صوبے کی آزاد و خودمختار پولےس فورس مےں کس حد تک سےاسی مداخلت ہے ؟
ثناءاللہ عباسی : اس بارے میں یہی کہوں گا کہ کم ازکم مجھے کوئی ےہ نہےں کہتا تھا فلاں افسر ےا فلاں اہلکار کو فلاں جگہ پرتعےنات کردےں اختیارات بھی نچلے سطح پر منتقل کئے گئے ہےں میرے خیال میں تبدیلی حکومت کا پولیسنگ میں کوئی عمل دخل نہیں
آج :بار ہا کوششوں کے باوجود تھانہ کلچر تبدیل نہیں ہو سکا اس کی کیا وجہ ہے؟
ثناءاللہ عباسی: کافی حد تک تھانہ کلچر میں تبدیلی لا چکے ہیں''A thousand miles journery start with a single step.'' کے مصداق تھانہ کلچر کی تبدیلی کی طرف ہم نے کافی سفر طے کیا ہے درحقیقت ماڈل پولیس اسٹیشنز کا قیام اور ان کے اندرجملہ سٹاف کی میرٹ پر تعیناتی ‘جس کے ذریعے تعلیم یافتہ اور اچھی شہرت کے حامل پولیس افسران کو لگایا جاتا ہے جو عوام کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آکر ایک صاف ستھرے ماحول میں انکے مسائل حل کرتے ہیں، یہ تھانہ کلچر کی تبدیلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
 آج :پشاور کی آبادی کی نسبت پولیس کی نفری اور وسائل کتنے ہیں اور کتنے ہونے چاہئیں اس حوالے سے عالمی معیار کیا ہے؟
ثناءاللہ عباسی :پولیس کی نفری کم ہے یا زیادہ جو بات اس حوالے سے اہم ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے پاس جتنی بھی نفری ہے وہ کس حد تک الرٹ اور تیار ہے پشاور کی تقریباً 42 لاکھ کی آبادی کےلئے موجودہ نفری8400 ہے یعنی 550بندوںکےلئے ایک سپاہی ہے جو عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے لیکن خیبر پختونخوا پولیس کا کم وسائل اور قلیل نفری کے باوجود بھی تمام درپیش چیلنجز بشمول دہشت گردی کا صفایا اور جرائم کی بیخ کنی کرناہمیشہ سے طرہ¿ امتیاز رہا ہے۔

پروفائل
خےبر پختونخوا پولےس فورس کے سربراہ ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی 1964 ءکو سندھ کے دےہائی علاقے مےں پےدا ہوئے‘ 1988 مےں پولےس سروس مےں شمولےت اختےار کی ‘ پی اےس پی گروپ” 16“ کامن ٹرےننگ پروگرام سے فارغ التحصےل ہےں‘ انسداد دہشتگردی قانون مےں پی اےچ ڈی کےسا تھ اےل اےل اےم (کرےمنالوجی)اےم اے (کرےمنالوجی)اےم اےس (سوشل سائنس ) اور کرےمنالوجی مےں اےل اےل بی کی ڈگری رکھتے ہےں ¾ ثناءاللہ عباسی کا شمار ملک کے بہترےن مصنفوں مےں بھی ہوتا ہے”کار لفٹگ کرائمز“ پر مفصل کتاب کی تحرےر کا سہرا بھی آپ کے سر جاتا ہے اسی طرح دہشتگردی اور اس کے سدباب ¾غےرت کے نام پر قتل ¾ خواتےن پر تشدد اور ملکی معےشت پر تھےسز بھی لکھ چکے ہےں‘ ےکم جنوری کو خےبر پختونخوا پولےس کی سربراہی کا چارج سنبھالا اس سے قبل آپ گلگت بلتستان کے انسپکٹر جنرل رہ چکے ہےں 2015ءسے 2018ءتک سندھ پولےس مےں اےڈےشنل آئی جی پی (سی ٹی ڈی ) کراچی ¾ 2014ءسے 2015ءتک ڈی آئی جی حےدر آباد اور ڈی آئی جی سپےشل برانچ کراچی کے عہدو ں پر فرائض انجام دے چکے ہےں اس کے علاوہ آپ ملکی و بےن الاقوامی ےونےورسٹےوں مےں تدرےسی اور تربےتی تجربہ بھی رکھتے ہےں 6 سال تک ہاروڈ ےونےورسٹی مےں جرائم اور دےگر اےشوز پر مکالے تحرےر کرچکے ہےں ڈومےسٹک اور فارن ٹرےننگ مےں بھی حصہ لے چکے ہےں ثناءاللہ عباسی قائداعظم پولےس مےڈل اور پاکستان پولےس مےڈل کے اعزاز ےافتہ ہےں اپنی سروس کے دوران ڈی آئی جی لاڑکانہ زون ¾ ڈی آئی جی حےدر آباد زون ¾ اسسٹنٹ ڈپٹی انسپکٹر جنرل سی سی پی کراچی ¾ اےس اےس پی سی سی پی کراچی ¾ اسسٹنٹ ڈی آئی جی کراچی ¾ ٹاﺅن پولےس آفےسر کراچی ¾ اےس اےس پی شکار پور ¾ اےس پی نوشےرو فےروز ¾ وزےراعلیٰ سند ھ کے سٹاف آفےسر ¾ اےڈےشن اےس پی (اےسٹ اےنڈ وےسٹ ) کراچی ¾ اور صوبہ پنجاب کے مختلف اضلاع مےں اے اےس پی ( اےس ڈی او ) کے فرائض انجام دے چکے ہےں ۔