ننھی پری کیاگزری؟

پاکستان کاشمار سب سے زیادہ خیرات دینے والے ممالک میں ہوتا ہے یہاں گداگری ایک پیشہ بلکہ مافیا کی حیثیت اختیار کر چکا ہے گلیوں ٗ بازاروں ٗ شاپنگ مالز اور چوراہوں میں گداگرمرد ٗ خواتین اور بچے نت نئے روپ اختیارکئے  ہاتھ پھیلائے ہوئے نظر آتے ہیں‘ حتیٰ کہ پارکوں میں بھی ان کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے کچھ درندہ صفت لوگ بچوں کو اغوا کرکے زبردستی بھیک مانگنے پر مجبور کردیتے ہیں یہ بھکاریوں کی خوفناک ترین قسم ہے‘ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں 65فیصدگداگر کام کرنے کے قابل ہیں لیکن انہوں نے گداگری کو اپنا رکھا ہے پیشہ ور بھکاری ہر بندے کو پکڑ کر ٗ راستہ روک کر ٗ دروازہ کھٹکھٹا کر بھیک وصول کرنے کو حق سمجھنے لگے ہیں‘مقدس مہینوں میں خاص طور پر گداگروں کا سیزن بھی عروج پر آجاتا ہے ہر جگہ سے گداگر شہروں کا رخ کرتے ہیں اور جہاں ٹھیکیدار عوام کو بھرپور لوٹنے کی ترغیب و ٹریننگ دے کر ان گداگروں کو اپنے ٹھکانوں پر پہنچا دیتے ہیں عجیب عجیب حرکات اور واسطوں سے عوام کو لوٹنے کی کوشش کی جاتی ہے صحت مند ہونے کے باوحود بھی یہ دھندا  جاری رکھے ہوتے ہیں آج کے ہمارے معاشرے میں گداگری نہ صرف ضرورت ہے بلکہ پیشہ بن چکا ہے پیشہ وربھکاری میدان میں آگئے ہیں وہ گداگر جو کبھی مساجد کے باہر ملا کرتے تھے یا بازار جانے پر ایک طرف سر جھکائے بیٹھے نظر آتے تھے اب وہ ہر گلی ہر محلے ہر بازار و سڑک پر عام نظر آتے ہیں‘نہ صرف نظر آتے ہیں بلکہ بھیک مانگنے کے لئے پیروں میں بھی گر پڑتے ہیں۔

اب اصل فقیروں کی جگہ پیشہ ور بھکاریوں نے لے لی ہے‘ اکثر تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کم بھیک ملنے پر بھکاری آپکو برا بھلا کہہ کر نکل جاتے ہیں اب تو ہم انہیں نظر انداز کرنا بھی سیکھ گئے ہیں آج کے دورمیں وہی پیشہ ور بھکاری کامیاب ہیں جو کبھی ہاتھ تو کبھی دوپٹہ پکڑ کر بھیک مانگتے ہیں باقی جو کسی کونے کھدرے میں بیٹھا ضرورت مند ہے وہ ہماری عنایتوں سے محروم رہ جاتا ہے اسکی مدد تو دور ہم اس پر نگاہ بھی نہیں ڈالتے ہیں جنہیں ہم معمولی تصور کرتے ہیں وہ قطعی معمولی نہیں ہمارے معاشر ے میں گداگری اس قدر عروج پر پہنچ چکی ہے جوحکمرانوں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے جس پر کسی کا دھیان اس انداز میں نہیں پڑتا جیسے کہ پڑنا چاہئے ہم آئے روز تقریباً ہر چوک ہر گلی محلہ اور ہر شاہراہ پر بوڑھوں‘جوانوں اور کم عمر لڑکوں سمیت معصوم بچوں کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھتے ہیں ان بھکاریوں میں زیادہ ترخواتین اوربچیاں شامل ہوتی ہیں دکھی انسانیت کے ناطے ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق ان کی امداد بھی کرلیتا ہے مگر آج کل کے مصروفیات سے بھرے اس دور میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ان کا حال جاننے کیلئے ان کے ساتھ کوئی دکھ سکھ کے ایک دو بول ہی بول لے یہ 2جولائی کی بات ہے کہ ایس ایچ او گلبہار احمد اللہ خان معمول کے گشت پر تھا کہ اس دوران گلبہار روڈ پر ایک معصوم بچی کو روتا دیکھا تو اس نے بچی کے پاس جاکر رونے کی وجہ پوچھی تو بچی نے انکشاف کیاکہ وہ تقریباً 11 ماہ قبل کرم ایجنسی صدہ سے اغواء ہوئی ہے جس پر پولیس چونک اٹھی اور بچی کو تھانے لے آئی جہاں بچی نے اپنا نام شہناز بتایا‘ جس پر پولیس نے بچی کے والدین کو آگاہ کیا اور پھر اسی بچی کی نشاندہی پر قاضی کلے میں چھاپہ مارکر جنوبی اضلاع او ر دیگر دور افتادہ علاقوں سے بچوں و بچیوں کو اغواء کرکے خرید و فروخت اور گداگری کرانے والے افغان بردہ فروش گروہ کو گرفتار کرلیا۔

 گرفتار گروہ میاں بیوی ٗ بیٹی اور بھائی پر مشتمل تھا جنہوں نے ابتدائی طور پرصدہ (کرم ایجنسی) سے کمسن بچی کو اغواء کیاتھا اور اس سے پشاور میں گداگری کراتے تھے پولیس نے 11 ماہ بعد بچی کو بازیاب کراکر والدین کے حوالے کردیا اس ضمن میں ایس پی سٹی وقار عظیم کھرل نے ڈی ایس پی گلبہار سجاد حسین اور ایس ایچ او گلبہار احمد اللہ کے ہمراہ مشترکہ بریفنگ دیتے ہوئے بتایاکہ سٹرک کنارے بیٹھی ایک بچی شہناز رو رہی تھی اس دوران ایس ایچ او نے بچی سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے انکشاف کیا کہ وہ کرم ایجنسی کی رہائشی ہے اور کچھ لوگ  اسے اغواء کرکے یہاں لے آئے اور مجھ سے یہاں بھیک منگوانے لگے‘ جس پر پولیس حرکت میں آگئی اور بچی کی نشاندہی پر ملزموں کی رہائشگاہ واقع قاضی کلے میں چھاپہ مار کر دو بھائیوں جاوید ٗ مجاہد ٗ گلالئی زوجہ جاوید اور نازو دختر جاوید کو گرفتار کرلیا جنہوں نے ابتدائی تفتیش کے دوران انکشاف کیاکہ انہوں نے 11 ماہ قبل بچی کو صدہ کرم ایجنسی سے اغواء کیا اور پھر پبی کے ایک گروہ سے 8 لاکھ روپے کے عوض اسے دوبارہ خریدا‘ ملزمان لاکھوں روپے کے عوض بچیوں کی خرید وفروخت میں ملوث ہیں‘پولیس کے مطابق گرفتار گروہ کا تعلق افغانستان ہے پولیس نے بازیاب ہونیوالی بچی کو والدین کے حوالے کردیا اس موقع پر رقت آمیز مناظردیکھنے کو ملے‘ پولیس نے مقدمہ درج کرکے مزید تفتیش شروع کردی ہے‘ مغویہ بچی کا والد سلطان محمد محکمہ پولیس سے ریٹائرڈ ہے اس نے جب بچی کو دیکھا تو وہ اس کو گلے لگاکر زار وقطارروتا رہا‘ اس موقع پر پولیس افسران بھی آبدیدہ ہوگئے‘سلطان محمد کے مطابق بچی کی تلاش میں اس نے کوئی جگہ نہیں چھوڑی وہ پشاور پولیس کیلئے ہمیشہ دعاگو رہے گایہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں بھکاریوں کی کئی قسمیں ہوتی ہیں جو ہمیں اکثرو بیشتر دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں‘ ایک وہ جو بھیک ضرور مانگتے ہیں وہ بھی کسی محتاجی یا جسم کی معذوری کی بنا پر، ایسے‘ وہ ضرورت مند ہوتے ہیں۔

 جو کسی راہ گذر سے الگ خاموشی سے بیٹھے ہوتے ہیں دوسرے وہ جو نکمے ہوتے ہیں اور کچھ کرنے کے اہل خود کو نہیں پاتے ہیں اور اپنے بچوں کو لے کر سڑکیں ناپ رہے ہوتے ہیں‘ تیسری وہ خواتین جو اپنے مردو ں کی نالائقی، کام چوری سے تنگ آکر بھیک مانگنے کے لئے نکلتی ہیں،اس سے آسان کام کوئی ہو ہی نہیں سکتا، کچھ حضرات وخواتین اسے پیشہ بنا کر اپنی موج مستی کے لئے استعمال کرتے ہیں ان میں وہی بھکاری مدد کے مستحق ہیں جو مجبور ہو کر بھیک مانگتے ہیں‘ان کے علاوہ سبھی کے ضمیر مردہ لگتے ہیں‘ سب سے مظلوم قسم بچوں پر مشتمل ہوتی ہے یہ بچے آپکو جو اکثر بھکاری بن کے ملتے ہیں ان میں اکثر ضرورت منداور انکی اکثریت مجبورا ًبھیک مانگتی ہے‘کیونکہ یہ یرغمال ہوتے ہیں‘کچھ درندہ صفت لوگوں کے جو خود تو کچھ نہیں کرتے مگر بچوں کو کبھی اغوا ء ٗ تو کبھی تشدد کرکے زبردستی بھیک مانگنے پر مجبور کردیتے ہیں‘اکثر جب بھی کبھی ایسا تشدد کا کوئی واقعہ یا کسی بھی معاملے میں بچوں پر تشدد ہوا ہے تو ہمار ی انتظامیہ یہی کہتی نظر آتی ہے کہ یہ سبھی بچے ہمارے بچے ہیں مگر ہماری سوئی ہوئی انتظامیہ کو جاگنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے بچے کس کس جال میں پھنسے ہیں انہیں تو خبر بھی نہیں ہے اگر احساس ہوتا تو یہی بہت تھا کہ ننھے فرشتے بھیک جیسا کام کرکے اپنے ذہن و سوچ کو غلط سمت لے جاتے ہیں اور بڑے ہو کر انکے مجرم بننے پر سارا قصور اسی انتظامیہ کے سر جانا چاہئے‘ معاشیات کے ماہرین کی رائے میں بھیک مانگنا درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے منفی پہلوؤں میں سے ایک ہے اور کسی بھی سرمایہ دارانہ معاشرے کی جڑوں کو کمزور کرنے کا سبب ہے‘گداگری غربت اور محرومی سے جنم لینے والی ایک سرگرمی کا نام ہے۔ یہ دوسروں کے سامنے پیش کی جانے والی ایسی درخواست کا نام ہے جسے پیش کرنے کا مقصد حصول رقم یا صدقات ہوتا ہے اور جسے پیش کرنے والا یہ رقم ذہنی و جسمانی مسائل، غربت وغیرہ کے سبب خودکمانے سے قاصر ہوتا ہے پسماندگی اور غربت کے باعث دن اور رات لمحات میں ہر سمت بھیک مانگتے نظر آتے بچوں کی تعداد انتہائی دردناک صورت اختیار کرتی جارہی ہے، غربت اور بیروزگاری کے مارے افراد نے گداگری کو کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے بھوک کے مارے نچلے طبقے کے لوگ یہ پیشہ اختیار کرتے ہیں بلکہ اپنے گینگ کے سربراہوں اور پولیس کو حصے کے طور پر بھتہ بھی ادا کرتے ہیں۔