نئے تھانوںکاقیام سہولیات کااب بھی فقدان

 احسن اعوان
 عکاسی :مقصود احمد

ےہ حقےقت ہے کہ پشاور پولیس گزشتہ ایک دہائی سے زائد کے عرصے پر محیط اعصاب شکن مقابلہ کرتے ہوئے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں صف اول کا کردار ادا کر رہی ہے اور اسی فورس کے اےڈےشنل آئی جی سے لےکر سپاہی تک کے تقرےباً ڈےڑھ ہزار سے زائد جوانوں نے اپنی جانیں اس دھرتی پر قربان کیں‘ ملک بھر اور بالخصوص صوبائی دارالحکومت پشاور مےں دہشتگردی کی لہر بڑھنے کے ساتھ ہی دہشت گردانہ کاروائیوں میں تیزی آتی گئی جس کے سد باب کی خاطر پشاور پولیس نے ٹھوس اقدامات اٹھاتے ہوئے تمام وسائل کو بروئے کار لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی‘ دہشتگردوں کے خاتمے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر دیگر ضروری اقدامات کے ساتھ ساتھ متعدد چوکیاں اور نئے تھانے قائم کئے گئے جس سے نہ صرف دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے میں مدد ملی بلکہ عوام کو قریبی علاقوں میں بہترین پولیس سروسز بھی فراہم کی گئیں اسی طرح پولیس کے نئے تھانوں کے قیام سے جہاں دور دراز کے علاقوں میں پولیس گشت سے جرائم ختم کرنے میں مدد ملی وہیں شہریوں میں بھی تحفظ کا احساس مزید تقویت پایا‘پشاور پولیس نے سابقہ قبائلی علاقوں جو دہشت گردوں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا سے پشاور کو محفوظ بنانے کی خاطر سکیورٹی” کریسنٹ “کے نام بم پروف چوکےا ں قائم کےں شہر کے جنوبی طرف سے ہوتے ہوئے مغربی اور شمال کی جانب تعمیر ہونےوالی31 پولیس چوکیوں میں جدید سہولیات بھی فراہم کی گئیں جن کی تعمیر سے نہ صرف ان علاقوں میں امن و امان قائم کرنے میں مدد ملی بلکہ پولیس اہلکاروں کو بھی محفوظ ترین، جدید، مضبوط اور تمام ضروری سہولیات سے آراستہ رہائش میسر ہو سکی ہے اسی طرح پشاور پولیس نے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے بعد ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے انقلابی منصوبہ لاتے ہوئے ہوائی جہازوں کو بھی مستقبل میں کسی بھی دہشت گردانہ کاروائی سے بچانے کی خاطر دور جدید کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے 8 واچ ٹاورز تعمیرکئے اس کے علاوہ عوامی سہولےات کے مدنظر رکھتے ہوئے”تھانہ رحمان بابا “ اور تھانہ شاہ پور کے نام سے دوتھانوں کا قےام مےں لاےاگےا جس کے بعد پشاورمےں تھانو ں کی تعداد 35 ہوگئی جبکہ 20 تھانوں کی ازسر نو حد بندےاں بھی کی گئیں عوامی سہولت اور آبادی میں تیزی کے ساتھ ہونے والی تبدیلیوں کو مدنظررکھتے ہوئے قائم تھانہ شاہ پور کی حدود مےں یاسین آباد ¾ دلہ زاک ¾ چابیان ¾ فتوعبدالرحیمہ ¾ بیلہ نیکو خان ¾ بڈھنی ¾صابی ¾ حبیب آباد ¾ وڈپگہ ¾ ٹیوب ویل کورونا ¾ گلوزئی، محمد زئی، پخہ غلام، دوران پور، مومند آباد، گڑھی غلام رسول، خان بہادر کالونی، منظور آباد، کاکا خیل اور شنواری ٹاون جبکہ تھانہ رحمان بابا کی حدود میں ہزارخوانی، دیہہ بہادر کلے، اچر کلے، موسم گڑھی، جاوید آباد، گڑھی قمر دین، گڑھی عطا محمد، بلال کالونی، گلشن آباد، گلشن رحمان کالونی، کوہاٹ بس اڈہ، عثمانیہ ٹاﺅن، حیات خان گڑھی، دیر کالونی، پنج پیر، غفور آباد اور دیر کالونی کے علاقے شامل کئے گئے۔

 اسی طرح ورسک سرکل کے نام سے ایک نیا سرکل بھی قائم کیا گیا ہے جس میں کینٹ اور رورل ڈویژن کے دو تھانے تھانہ متھرا اور تھانہ مچنی گیٹ شامل ہےں عوامی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے 20 تھانوں کی ازسر نو حد بندی کے تحت تھانہ مچنی گیٹ سے تبلیغی مرکز، واپڈا ہاﺅس، حسن گڑھی، سلطان قلعہ اور میر ویس گڑھی علیحدہ کر کے تھانہ فقیر آباد کی حدود میں جبکہ نیو ڈیفنس آفیسر کالونی کوتھانہ شرقی کی حدود میں شامل کیا گیا‘ اسی طرح تھانہ متھرا سے گڑھی فاضل، گڑھی فاضل ٹو، گڑھی مندرہ خیل، تیرائی بالا، ڈاگ درمنگی، گڑھی فضل الحق، کانیزہ، بابو گڑھی، تیرائی پایاں، شگئی ہندکیاں، شگئی ہندکیاں ٹو، پٹوار بالا، پیر بالا اور پٹوار پایاں علیحدہ کر کے تھانہ مچنی گیٹ کی حدود میں شامل کئے گئے ہیں، جاری نوٹیفکیشن کے مطابق تھانہ پشتخرہ کی حدود سے لنڈی اخون احمد علیحدہ کر کے تھانہ سربند کی حدود میں جبکہ تھانہ فقیرآباد کی حدود سے قاضی کلے علیحدہ کر کے تھانہ خزانہ میں شامل کئے گئے ہیں، اسی طرح تھانہ آغا میر جانی شاہ سے گجر آباد، سدا بہار کالونی، جمیل چوک، شہید آباد نمبر 1، گڑھی لعل باچا تھانہ پھندو کی حدود میں جبکہ تھانہ پہاڑی پورہ کی حدود سے چغلپورہ کو علیحدہ کر کے تھانہ چمکنی کی حدود مےں شامل کیاگیا‘اسی طرح تھانہ حیات آباد کے سیکٹر ایچ 1، ایچ 2، ایچ 3، ایچ 4 اور جی1، جی 2، جی 3، جی 4 جبکہ ای 1، ای 2، ای 3 اور ای 4 تھانہ تاتارا کی حدود میں شامل کئے گئے ہیں تھانہ شرقی سے سول کوارٹرز، کینٹ ریلوے اسٹیشن، ستار شاہ باچا کو علیحدہ کر کے تھانہ بھانہ ماڑی کی حدود میں شامل ہوئے‘ تھانہ شرقی سے ڈینز پلازہ علیحدہ کر کے تھانہ غربی جبکہ تھانہ شرقی ہی سے ڈبگری گارڈن اور شعبہ بازار تھانہ شاہ قبول کی حدود میں شامل ہوگئے‘ تھانہ شرقی سے جناح پارک کو تھانہ شہید گلفت حسین جبکہ تھانہ شرقی ہی سے ہسپتال کالونی علیحدہ کر کے تھانہ خان رازق شہید کی حد مقرر کی گئی ہے، اسی طرح رورل ڈویژن کے تھانہ داﺅدزئی سے بیلہ ممندان، زوڑ منڈی، ڈھیرے کلے، شیر کلے، ظریف کورونا تھانہ متھرا کی مقررہ حد میں جبکہ تھانہ پشتخرہ سے دانش آباد، ابدرہ پاوکہ کے علاقے علیحدہ کر کے تھانہ ٹاﺅن کی حدود میں شامل کےاگےا‘تھانہ چمکنی سے گلشن کالونی، فیصل کالونی، آفریدی گڑھی تھانہ گلبہار کی حدود میں جبکہ تھانہ تہکال اور ٹاﺅن سے گل آباد تھانہ ناصر باغ کی حدود میں شامل کیا گیا ہے، تھانہ مچنی گیٹ سے قافلہ روڈ، ویڈنگ ہال روڈ (گورا قبرستان کا پچھلا حصہ) نالہ تہکال پایاں تھانہ تہکال کی مقررہ حد میں شامل جبکہ تھانہ انقلاب سے بازید خیل، احمد خیل، کگہ ولہ، پنج کٹھہ اور شیخ محمدی کو تھانہ بڈھ بیر کی حدود میں شامل کیا گیا ہے، اسی طرح تھانہ متنی سے علاقہ گڑھی فیض اللہ، شمشتو کیمپ، گڑھی چندن اور ناک بند کے علاقے تھانہ ارمڑ کی حدود میں شامل کئے گئے ہیں ےہ حقےقت ہے کہ خےبرپختونخوا اوربالخصوص پشاور پولےس نے دہشتگردی کےخلاف فرنٹ لائن کا کردار ادا کےا اور کربھی رہی ہے اس مےں تو کوئی دو آراءنہےں کہ شدت پسندی کےخلاف خےبر پختونخوا پولےس کی قربانےاں لازوال ہےں حکمرانوں کی جانب سے اکثر بےانات آتے رہتے ہےں کہ دہشتگردی کو ختم کردےاگےا ہے شد ت پسندوں کے نےٹ ورک تباہ کردےئے گئے ہےں اور اسی طرح کے مزےد اےسے بےانات جن مےں کارکردگی کے حوالے سے بہت سے دعوے کئے جاتے ہےں مگر کچھ ہی عرصہ بعد خےبر پختونخوا کے کسی نہ کسی کونے سے کسی دہشتگردی کی خبر سننے کو ملتی ہے جس مےں پولےس اہلکار ےا افسران اپنی جانوں کے نذرانے پےش کرتے دکھائی دےتے ہےں جن پر نہ صرف محکمہ پولےس بلکہ حکومتےں ¾ حکمران اور بالخصوص ےہا ں کے عوام فخر پےش کررہے ہوتے ہےں جب ےہاں شدت پسندی شروع ہوئی تو اس کی ابتدائی ہی پولےس فورس پرحملوں سے ہوئی ملک سعد شہےد پر حملہ شاید ہی عوام کو بھولے‘ عابد علی کو جس انداز اور پلاننگ سے مارا گےا ‘ انہوں نے بھی تو مافےا اور شدت پسندوں کا جےنا دوبھر کرکے رکھ دےا تھا‘ غرض ملک سعد شہےد سے صفوت غےور تک اےک لمبی فہرست ہے قربانےوں کی جرات کی اور بہادری کی‘ جب اعلیٰ افسران ےوں جام شہادت نوش کررہے ہوں تو پھر اہلکاروں کے بھی حوصلے بلند ہوجاتے ہےں ےہی وجہ ہے کہ پولےس افسران کے ساتھ ساتھ اہلکاروں کے جذبے ¾ قربانےوں اور شہادتوں کا رتبہ پانے کو آج بھی زبردست خراج عقےدت پےش کےاجارہا ہے اور ان کے کارنامے فخر ےہ پےش کئے جارہے ہےںدہشتگردی کےخلاف جنگ مےں پولےس موبائل گاڑےوں ¾ تھانوں اور چےک پوسٹوں کو نشانہ بناےاگےا اور اب چونکہ پشاور مےں نئے اور ماڈل تھانے ¾ بم پروف چوکےاںبن گئی ہیں‘مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ جہاں ےہ جوان دہشتگردی کےخلاف جنگ لڑ رہے ہےں وہےں ان کےلئے نہ صرف سہولےات کا فقدان ہے بلکہ رہائش کا مناسب بندوبست تک نہےں۔

‘نئے تھانے توبنادےئے گئے ¾ بم پروف چوکےاں بھی قائم کردی گئےں لےکن آج کے اس جدےد دور مےں بھی اگر آپ کی نظر کسی ایسی عمارت پر پڑ جائے جو21ویں صدی میں 18 ویں صدی کی جیتی جاتی تصویر ہو جس کے باہر لاتعداد ریت کی بوریاں پڑی ہوں جس کے درویوار خستہ اور بدحال ہوں جن کا پلستر اکھڑ چکا ہو اور جس کی سفیدی انگریزوں کے بعد نہ ہوئی ہو جس کا دروازہ ریت کی بڑی بڑی بوریوں کے عقب سے جھانک رہا ہو اور جس کا رنگ سرخ اور نیلا ہو اور حیرت انگیز طورپر یہ دروازہ عقب سے مقفل بھی ہو اور اس دروازے کاپھاٹک بھی ہو جس پر دو عدد سپاہی آپ کی عزت نفس کو مجروح کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار اور مستعد ہوں جن کا نصب العین ہی یہی ہو کہ اس پھاٹک سے گزر کر کوئی شریف شہری اندر نہ جانے پائے اور جن کا دوسرا نصب العین یہ ہو کہ اسی پھاٹک پر صبح سے شام تک ڈیوٹی دے کر وہ کم از کم آج کے دن کیلئے خرچہ پانی نکال لیں اور جن کا تیسرا نصب العین یہ ہو کہ محرر اور ایس ایچ او صاحب تک ہر کسی کی رسائی ناممکن بنادیں‘ اب عمارت کا مزید نین نقشہ بھی ملاحظہ فرمائیں آپ کو اس عمارت کے باہر درجنوں ٹوٹی پھوٹی گاڑیاں پڑی ہوئی ملیں گی جن کے نہ ٹائر موجود ہونگے نہ انجن ‘دروازے اور نہ بونٹ ہوگا نہ سپیئر ٹائر ہوگا اور نہ دیگر ضروری سامان آپ کو دیکھنے کو ملے گا یہ سارا سامان کدھر گیا اس پر زیادہ سوچنے اور غوروفکر کی ہرگز ضرورت نہیں ہر کس و ناکس کو اچھی طرح علم ہے کہ یہ جملہ سازوسامان مستریوں اور کباڑیوں کو کس نے بیج دیا ہے عمارت کی چھت پر ریت کی بوریاں ایک بڑی مقدار میں پڑی ہوںگی چھت پر ایک بوسیدہ سا خیمہ بھی نصب ہوگا جس پر جگہ جگہ پیوند لگے ہونگے ان بوریوں کی دیوار کے بیج میں ایک ضرب ایک فٹ کا ایک چوکور سوراخ ہوگا جس میں سے ایک زنگ آلود بندوق کا بیرل جھانک رہا ہوگا گمان غالب ہے کہ یہ بندوق فائر کرنے کے قابل ہرگز نہیں ہوگی کیونکہ یہ2008 سے 2010ءکے دوران خریدی گئی تھی اور بعدازاں پتہ چلا تھا کہ یہ بندوقیں بے کار تھیں اور اس ٹھیکے میں خاطر خواہ گھپلے کئے گئے تھے ‘سوراخ میں سے جھانکتی بندوق کا رکھوالا سپاہی تھک کر قریب ہی پڑی چارپائی پر سستانے کیلئے بیٹھا ہوگا یا تو وہ اپنی بوریت بھگانے اور ڈیوٹی کا ٹائم پورا کرنے کیلئے فیس بک استعمال کررہا ہوگا یو ٹیوب پر پشتو کے تازہ ٹپے سن رہا ہوگا وہ اپنی ڈیوٹی سے اس قدر بیزار ہوا ہوگا کہ نہ اسے چوکیداری کی فکر ہوگی اور نہ سکےورٹی کی اسے تو بس اپنی8گھنٹے کی شفٹ مکمل کرکے اپنے گھر جانے کی پڑی ہوگی کسی آئی جی کی ہداےت پر پشاور مےں نئے تھانے تو قائم ہوگئے ¾ چوکےاں قائم ہوگئےں لےکن اب کسی تھانے میں انٹری پر آپ کو عجیب سی حیرت بھی ہوتی ہے آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ1947ءمیں جی رہے ہیں اور اب ہی انگریز یہاں سے اٹھ کر گئے ہیں‘ وہی الفاظ وہی انداز‘ وہی قانون کچھ بھی تو نہیں بدلا‘ نہ ہی عمارتیں اور نہ ہی طور طریقے بدلے ‘ایک چھوٹا سے کمرہ چھترول کیلئے مختص ہوگا ‘اس کمرے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں انصاف کے قیام کی کوشش حددرجہ کی جاتی ہےں یعنی بے گناہ اور گناہ کار کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے اس کمرے سے ہمہ وقت گناہ گاروں اور بے گناہوں کی پرسوز اور دلدوز آہ و بکا یکساں سنائی دیتی ہے اور ہاں محرر صاحب کی اضافی ذمہ داریوں میں ان چلانے اور رونے والوں کی آواز بلند کو سنا بھی ہوتا ہے اور ایک بات تو یاد ہی نہیںرہی محرر صاحب اگر آپ کی رپورٹ درج کرنے پرراضی ہو بھی جائیں تو درجنوں اوٹ پٹانگ سوالات کا جواب بھی آپ کو دینا ہوگا جیسا کہ آپ کو کس پر شک ہے؟ آپ کے بھائی کہاں تھے اور کیا کرتے ہیں؟ آپ کے گھر میں کون کون ہے؟ آپ کے پڑوس میں کون کون ہے؟ اور جیسے ہی آپ کی ایف آئی آر درج ہوتی ہے آپ کے گھروالوں سے شروعات ہوتی ہے اور پڑوسیوں کی گرفتاری پرسارے کا سارے کیس آجاتا ہے آپ کے دشمنوں میں اضافہ ہوتا ہے اور آپ بھاگے بھاگے جاکر اپنی ایف آئی آر کسی نہ کسی طرح واپس لے لیتے ہیں اور محرر صاحب کا مشن مکمل ہو جاتا ہے‘ تھانے میںآپ کی ملاقات چند ایک اجنبیوں سے بھی ہوئی ہوگی جو عرف عام میں ٹاﺅٹ کہلاتے ہیں‘ یہ افراد چوری چکاری سے لے کر قتل کے کیسوں تک میں آپ کی ”جانی و مالی اور قولی و فعلی امداد“ کیلئے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کی جیب بھاری ہو‘ ان کا دوسرا کمال یہ ہے کہ معقول معاوضے پر یہ آپ کے مخالفین کو بھی کیسوں میں الجھانے کا ہنر جانتے ہیں اور یہ سب کرتے ہوئے ان صاحبان کو عملے کی مکمل آشیرباد حاصل ہوتی ہے‘ تھانے میں داخلے سے لے کر ایف آئی آر کے اندراج اور بعدازاں اس ایف آئی آر پر کاروائی میں جتنے پاپڑ سائلین کو بیلنے پڑتے ہیں ایسے میں اکثر سائلین اپنے خلاف ہونیوالی وارداتوں پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں اور چاروناچار اپنے ظلم کا بدلہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ تھانے میں اکثر لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں‘ ہمارے تھانوں کے حالات دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کلچر میں تبدیلی خواب ہی رہے گی ‘آئندہ دو صدیوں میں بھی ہمارے تھانے برطانیہ اور امریکہ کے موجودہ نظام تک نہیں پہنچ سکیں گے اس لئے آپ کیلئے فری مشورہ ہے کہ آپ لٹتے ہیں آپ پر فائرنگ ہوتی ہے‘آپ کے پلاٹ پر قبضہ ہوتا ہے یا آپ حادثے کا شکار ہوتے ہیں ‘عافیت اسی میں ہے کہ صبرشکر کرکے بیٹھ جائیں اور تھانے کا رخ نہ ہی کریں تو آپ کے حق میں بہتر ہوگا۔
ماڈل تھانوں کی تعمیر جلد شروع ہو جائیگی ‘محمد علی گنڈا پور
 تھانہ پھندو ¾ پہاڑی پورہ اور بھانہ ماڑی کے لئے اراضی کا انتخاب کرلےاگےا ہے
پولیس کیلئے رہائشگاہوں کا بھی بندوبست کیا جائے گا‘سی سی پی اوکی بات چیت

چےف کےپٹل سٹی پولےس آفےسر پشاور محمد علی گنڈا پور نے روزنامہ ” آج “ سے بات چےت کرتے ہوئے بتاےاکہ گزشتہ چار پانچ سال سے ماڈل پولےس سٹےشن قائم کئے گئے ہےں جن کی ابتدا تھانہ گلبہار ¾ فقےرآباد اور ٹاﺅن پولےس اسٹےشن سے کی گئی ہے اس کے علاوہ تھانہ پھندو ¾ پہاڑی پورہ اور بھانہ ماڑی کےلئے اراضی کا انتخاب کرلےاگےا ہے بہت جلد ان تھانوں کی عمارتو ں کی تعمےر کا آغاز بھی کردےاجائے گا‘ انہوں نے کہاکہ ہماری ےہی کوشش ہے کہ پولےس اہلکاروں کے رہن سہن کو کےسے بہتر کےاجائے ‘جس کےلئے عملی اقدامات اٹھائے جارہے ہےں اس کے علاوہ پشاور کو محفوظ بنانے کےلئے قبائلی اضلاع سے متصل علاقوں مےں مجموعی طور پر 31 کرےسنٹ چوکےاں قائم کی گئیں جبکہ عوامی سہولےات کو مدنظر رکھتے ہوئے دو نئے تھانے اور 20 تھانوں کی ازسر نو حد بندےاں بھی کی گئی ہےں ‘انہوں نے کہاکہ کرےسنٹ چوکےوں مےں بےشترکا کنٹرول پولےس کے پاس ہے اور وہاں باقاعدہ طور پر نفری بھی تعےنات کردی گئی ہے ‘محمد علی گنڈا پور نے کہاکہ سالانہ ترقیاتی پروگرامز میں تمام پولیس سٹیشن اسی طرز پر بنائے جا رہے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ ان کی رہائش گاہ کا بھی بندوبست ہوگا ۔