اسے بدقسمتی کہیں یا جان بوجھ کر مسائل پیدا کرنے کی روش، سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کودیکھتے ہیں توبڑی پریشانی میں مبتلاہوجاتے ہیں ہماری سیاسی جماعتوں نے سیاست کو کٹھ پتلی بنارکھاہے دوسال سے زائدہوچکے ہیں ملک میں ایک پارٹی تحریک انصاف کی حکومت ہے جس نے اپوزیشن کاسخت مقابلہ کیاہے تاہم مسلم لیگ ن کے صدرمیاں شہبازشریف میں نہ جانے ایسی کونسی کشش ہے کہ انکے ساتھ ہرجماعت کے لوگ ملتے ہیں اورسیاسی مسائل پرتبادلہ خیال کرتے ہیں انکے مقابلے میں میاں نوازشریف بڑامحتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں‘ وزیراعظم عمران خان نے تبدیلی کانعرہ لگایا اورکھلے دل سے کہاکہ وہ پاکستان میں تبدیلی لاناچاہتے ہیں اسلئے ان کاتبدیلی کا نعرہ نتیجہ خیز ثابت ہوا ‘ باقی صوبوں میں تبدیلی آئی یا نہیں آئی مگر عمران خان کانعرہ کامیاب ثابت ہوا اپوزیشن نے بھی تبدیلی کی بھر پور کوشش کی انتخابی نتائج جو بھی سامنے آئے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مولانافضل الرحمن قومی سیاست میں فعال کردار رہے ہیں اور دیکھا جائے تو ساری اپوزیشن کا بوجھ انہوںنے اٹھایا ہواہے انکی کوششیں متحدہ اپوزیشن کے قیام میں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔دیکھا جائے تو شروع دن سے ہی مولانا صاحب نے اپوزیشن کو اکھٹا رکھا ہے اور موقع بہ موقع ایسا ماحول بھی بنادیتے ہیں کہ حکومت کیلئے کسی نہ کسی حد تک مشکلات پیدا کردیتے ہیں۔تاہم یہاں پر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں شاید اس وقت پوری طرح کھل کر حکومت کے مقابلے میں نہیں آنا چاہتیں اور وہ حالات کو دیکھتے ہوئے مفاہمت اور مخالفت دونوں پالیسیوں پر عمل پیرا ہیںاور یہی وہ مرحلہ ہے جس میں مولانا صاحب کو اکیلے ہی سب کچھ کرنے پر سوچنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ اگر حزب اختلاف کی دونوںجماعتوںنے اب بھی کھل کر اپنے کارڈ کھیلنے کی بجائے چھپ کر کھیلنے اور مصلحت سے کام لینے کی روش جاری رکھی تو پھر لگتا ہے کہ موجودہ حکومت کیلئے کوئی حقیقی خطرہ شاید ہی سامنے آئے۔ شیخ رشیدبھی سیاست میں اپنے وجودکااحساس دلاتے رہے ہیں۔
انہوں نے وزیراعظم عمران خان کی چھتری سے اپنے آپ کو ڈھانپ رکھاہے ، تجزیہ نگاروں نے بھی بازار گرم کررکھا ہے اور سیاستدانوں سے ملتے رہتے ہیں اوران کو دھوکے میں بھی رکھتے ہیں کہ فکرنہ کریں اقتدارانکے قریب پہنچ چکاہے اور وہ یہ کام بڑے طریقے سے کررہے ہیں لیکن حقائق ،حقائق ہوتے ہیں، پیرصاحب پگاڑا کے بعدشیخ رشید نے پیش گوئیوں کا شعبہ سنبھال رکھا ہے تاہم شیخ رشید کی ہرپیشگوئی ضروری نہیں کہ صحیح ہوبہت سے دیگرسیاستدان بھی اپنے سیاسی قدکاٹھ بڑھانے کےلئے پھلجڑیاں چھوڑتے رہتے ہیں جبکہ بعض سیاستدانوں نے تو مزاحیہ طرزگفتگوبھی اپنارکھاہے لیکن سیاستدانوں کی یہ کاوشیں کس کام کی اگر عوامی مسائل کو نظر انداز کرنے کا رویہ یونہی جاری رہا تو عوام ملکی سیاست میں دلچسپی لینا چھوڑ دیں گے ہم واضح طور پرکہناچاہتے ہیں کہ ملکی سیاست تیزی سے روبہ زوال ہورہی ہے ، ایک وقت تھا کہ حزب اختلاف اور اقتدار دونوں میں قابل قدر شخصیات موجود تھیں جو ایک دوسرے کیلئے برداشت اور تحمل کا مادہ رکھتے تھے تاہم اب یہ صورتحال ہے کہ حزب اقتدار مخالفین کی باتوں کو سننا گوارا کرنے کیلئے تیار نہیں اور دوسری طرف بھی یہی حالت ہے ۔ دونوں کی ایک دوسرے سے دوری کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملکی مسائل اور مشکلات میںکی بجائے اضافہ ہورہا ہے ۔ حزب اختلاف اور حزب اقتدار ایک جسد کی د و آنکھیں ہیں اس لئے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی اہمیت سے واقف ہوں اور ایک دوسرے کی رائے کااحترام بھی کریں۔ خاص کر موجودہ حالات میں کہ جب دنیا کورونا وبا سے نبرد آزماہے اور پاکستان میں اگر چہ یہ قابو میں ہے مگر ابھی اس کا خاتمہ نہیں ہوا۔ ابھی عید گزری ہے اس کے بعد جو حالات نظر آرہے ہیںاس میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے۔