تعلیمی مستقبل

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے عالمی سطح پر اس بات کو تسلیم کیاہے کہ جہاں تک مادری زبان کا تعلق ہے اسکا بنیادی فہم اور ادراک کسی بھی بچے کو اپنی زندگی کے پہلے ہی دن سے ہو جاتا ہے۔ طبی حوالے سے بھی یہ بات طے ہے کہ نو زائیدہ اپنی ایک مکمل شخصیت اور ہمہ جہت نفسیات رکھتا ہے۔ ماں اور خاندان کا بچے سے لگاو¿ اورانکی گفتگو بچے کے کانوں کے ذریعے اسکے ذہن میں نہ صرف جگہ پاتی بلکہ اسکی شخصیت کو بھی نکھارنے میں مدد دیتی ہے‘بچہ جب اس شعور کو پہنچتا ہے کہ وہ باہمی گفتگو کر سکے تو اسکی پرورش کا یہ تمام پس منظر اس کی سوچ کو الفاظ میں بدلنے میں معاون ہوتا ہے‘اسی لئے یونیسکو نے ابتدائی تعلیم اپنی مادری زبان میں دینے کی سفارش کی ہے‘ہمارے ہاں اول تاآخر تمام کی تمام تعلیم انگریزی میں دینے کی سعی کی جاتی ہے اور اسی لئے بجا طور پر یہ کہاجاتا ہے کہ ہمارے ہر بچے کو دو سے تین زبانیں سیکھنا پڑتی ہیں‘اگر ہمارے معاشرے کے اندر مثلاً پشتو‘ ہندکو‘ اردو موجود ہیں تو لا محالہ بچہ انہیں اپنی سماج سے سیکھ لیتا ہے‘ مگر کسی بھی مادری زبان کو تعلیمی زبان بنانے کا مقصد اس بچے کے اس ناپختہ شعور میں الفاظ کےساتھ ساتھ اپنی ثقافت کو راسخ کرنا بھی مقصود ہوتا ہے‘ مادری زبانوں میں ابتدائی تعلیم کا مقصد اسے سائنس کی زبان بنانا قطعی نہیں بلکہ جس معاشرے میں بچہ پلتا اور بڑھتا ہے اس زبان اور ثقافت کی حفاظت کا ذمہ اب اسی بچے کے سر ہے‘ پرائمری تعلیم کے بعد ہمارے ہاں بچہ کئی زبانوں میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے اور ضرورت تو یہ ہوتی ہے کہ بچہ بجائے کئی زبانیں سیکھنے کے ایک خاص شعبے پر توجہ مرکوز کرے۔ جہاں تک مختلف مدارجِ تعلیم کا تعلق ہے‘ اوپر دیئے گئے پرائمری‘ مڈل یا پھر ہائیر سیکنڈری کلاسز کےلئے وضاحت موجود ہے ۔ زبانیں سیکھنے میں کوئی قباحت نہیں تاہم یہ سلسلہ بعد ازاں بھی جاری رہ سکتا ہے ، ابتدائی مرحلے میں اگر بچے پر یہ بوجھ نہ ڈالا جائے اور اسے سیکھنے کے اس اہم مرحلے میں معلومات میں اضافے اور سیکھنے کا موقع دیا جائے تو یہ بہت بہتر ہے۔ اگر ایک بچہ اپنی مادری زبان میں ابتدائی معلومات آسانی سے حاصل کرلیتا ہے تو اس سے نہ صرف اس کا وقت بچ جاتا ہے بلکہ جو معلومات اس کو ابتدائی مرحلے میں مل جاتی ہیں وہ زیادہ پختہ ہوتی ہیں۔۔ بحیثیت قوم یہ ہماری ذمہ دار ی ہے کہ ہم جہاں نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں وہیں انہیں مادری زبانوں کا شعور و فہم بھی دیں۔ تعلیمی ضمن میں نصاب کی یکسانیت کو نافذ کیا جاسکے تو شاید ایک ایسی رکاوٹ عبور ہو جائے جو آئندہ دو دہائیوں میں ہماری نئی نسل کے سوچنے کی مختلف راہوں کو بھی یکجا کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔تعلیم وہی بنیادی اکائی ہے جو کسی بھی ملک کی ترقی اور سربلندی کا راستہ ہے تاہم یہ اہم سیڑھی تب ہی بلندی تک جانے کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے اگر اس کو وقتی تقاضوں اور ضروریات سے اہم آہنگ کیا جائے۔