(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
بنی نوع انسان کی تمام تر جدت اپنی جگہ مگر اس سے پھوٹنے والے مسائل میں آج کا سب سے بڑا مسئلہ موسمیات کی دنیا میں تغیرات کی وجہ سے وہ تاخت و تاراجی ہے جس کا ایک مظہر ہمیں اپنے ملک میں بھی گذشتہ ایک دہائی سے بہت واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے‘ اس میں زلزلے‘ سیلاب اور اب موسموں کا وہ مدو جذر جس کے ہم شاہد بن رہے ہیں نہ صرف یہ کہ اب اس کا احساس موجود سے عدم کی جانب رواں ہے بلکہ آنے والے سالوں میں ہماری غفلت کی وجہ سے اس کی معدومیت ہماری نئی نسل کو منفی طور پر متاثر کرے گی ۔خیبر پختونخوا میں گلیات اور ہمارے شمالی علاقہ جات وہ بہترین وادیاں ہیں جہاں اس تغیر کی شدت شاید کم محسوس ہوتی ہو مگر ہم اس سال سردیوں کے موسم میں ٹھنڈک کے سکڑنے اور اب گرمیوں کے پھیلنے کو دیکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب پاکستان میں سردیوں کا موسم کم سے کم ہی رہے گا‘ جب کہ دھوپ کی تمازت اور گرمی اپنی وسعت کو زیادہ سے زیادہ کر رہی ہے۔ سردیوں کو کھا جانے کی یہ روایت ہمارے مزاج میں بھی آ چکی ہے جس کامشاہدہ عام زندگی میں کیا جا سکتا ہے ۔ ہمارے ہاں بڑھتی ہوئی تند مزاجی اور بدمزگی کے پس منظر میں موسمیات کے یہ تغیرات ہی اپنا اثر دِکھا رہے ہیں۔ ہمارے صوبے میں ایک ارب نہ سہی اس کے آدھے بھی اگر پودے لگا دیئے گئے ہیں تو یہ ایک دہائی کے بعد اِن اثرات کو کم کرنے کا باعث ہوں گے جن کے باوصف آج ہماری دھرتی کی حدت زیادہ ہو رہی ہے۔ موسمیات کا موضوع ایک عالمی دائرہ کار رکھتا ہے اور پاکستان اس کا ایک رکن ہونے کی حیثیت سے اس عمل سے پوری طرح متاثر ہورہا ہے ۔یہ معاشرتی سطح پر اس کے اپنے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہماری نئی نسل کو دی جانے والی تربیت میں یہ بات شامل ہی نہیں کہ موسمیات کے ان تغیرات کو کس طرح کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں کی فیکٹریاں ‘ ٹریفک اژدھام ‘ بے ہنگم بڑھتی تعمیرات جس کے لئے بھٹوں کی تعداد زیادہ ہونا اور قصبوں کے اندر اب بھی فضلہ جات کو کھلی فضا کے حوالے کر دینا ایسے امور ہیں جن کے منفی اثرات سے بچنے کے لئے تربیتی نشستوں کا انعقاد ضروری ہے اور اِس کی سرپرستی ہر سطح پر ہونی چاہئے‘ اگر ہم اس حوالے سے کوئی مثبت اقدام کر سکتے ہیں تو ایک منظم قوم بننے میں بھی ہمیں یہ نکتہ نظر بہت کام دے سکتا ہے۔ ”Climate Change“کے موضوع پر بین الاقوامی سطح پر جو ادراک عام ہو رہا ہے اگر ہمارے ہاں اس کا ایک فیصد بھی سامنے آئے تو خداداد تحائف سے مالا مال یہ پاک دھرتی اپنے باسیوں کی بذات خود سب سے بڑی محافظ بن سکتی ہے۔ جہاں تک ہمارے قانون ساز اداروں کا تعلق ہے انہیں ایسی قانون سازی کرنا ہو گی جو ان تمام شعبہ جات میں جہاں موسم کو تباہ کرنے کے ذرائع موجود ہیں ان کے لئے یہ قوانین سد راہ ثابت ہو سکیں۔ورنہ دوسری صورت میں یقینا موسم کے ان تغیرات سے بچنے کی سوچ عبث ہی رہے گی۔ موسم اور ماحول کا چولی دامن کا ساتھ ہے اگر ہم اپنی نسل نو کو اس بات پر آمادہ کر لیں کہ وہ اپنی زندگی میں ایک پودا لگا کر اس کی حفاظت کریں گے اور پھر دریاو¿ں‘ نہروں‘ سڑکوں اور پارکوں میں کھلے عام گندگی سے بچنے کے لئے انہیں تربیت ملے گی تو امیدکی جا سکتی ہے کہ ہم ان تغیرات کے حوالے سے اپنے حصے کا کردار ادا کر لیں گے۔موسمیاتی تبدیلی کو سمجھنے اور اس کے اثرات کا ادراک کرنے سے ہی اس مسئلے کا تدارک کیا جا سکتا ہے اور یہ اٹل حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کسی ایک ملک تک محدود مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ عالمی برادری کو درپیش چیلنجز میں سے ایک ہے جن کا مقابلہ بھی سب مل کر ہی کر سکتے ہیں کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو حل کرے۔