دوحا امن مذاکرات، جامع جنگ بندی اور خواتین کے حقوق کی پاسداری پر زور 

 

دوحا۔افغان امن مذاکرات کے آغازپرجامع جنگ بندی اور خواتین کے حقوق کی پاسداری پر زوردیتے ہوئے شرکا ء نے کہاہے کہ ابھی بہت سے چیلنجز درپیش ہوں گے، اگر طرفین کا تمام نکات پر اتفاق نہیں بھی ہوتا تو انھیں ان پر سمجھوتا کرنا چاہیے اور افہام وتفہیم سے کام لینا چاہیے۔

افغان قائمقام وزیر خارجہ حنیف اتمرکے مطابق طالبان افغان حکومت کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات میں تکنیکی امور طے پا گئے بات چیت اطمینان بخش رہی۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق افغان حکومت اور طالبان مزاحمت کاروں کے وفود کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن مذاکرات جاری ہیں۔

اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے متحارب فریقوں پر زوردیا کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور ایک جامع امن معاہدہ طے کریں۔ البتہ انھوں نے یہ بات تسلیم کی کہ ابھی بہت سے چیلنجز درپیش ہوں گے۔انھوں نے کہا کہ آپ کا سیاسی نظام آپ کا اپنا انتخاب کردہ ہوگا اور اس کو آپ نے خود ہی بنانا ہے۔ہم اس بات میں پختہ یقین رکھتے ہیں کہ تمام افغانوں کے حقوق کے تحفظ کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ تشدد کے چکر کو توڑیں۔

مائیک پومپیو نے طالبان اور حکومت کے وفود کو خبردار کیا کہ امریکا کی جانب سے مستقبل میں افغانستان کی مالی امداد کا انحصار ان کے انتخاب اور عمل پر ہوگا۔

امریکا کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے صحافیوں سے گفتگو میں مذاکرات میں ترجیحات کی وضاحت کی کہ پہلے دہشت گردی کی روک تھام ایک بڑی شرط تھی لیکن اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کو مستقبل میں کانگریس کی منظور کردہ کی کسی بھی فنڈنگ میں اہمیت حاصل ہوگی اور اب خالی چیک نہیں دیا جائے گا۔

افغان امن کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے اس موقع پر کہا کہ اگر طرفین کا تمام نکات پر اتفاق نہیں بھی ہوتا تو انھیں ان پر سمجھوتا کرنا چاہیے اور افہام وتفہیم سے کام لینا چاہیے۔انھوں نے کہاکہ میرا وفد دوحا میں ہے۔یہ ایک ایسے سیاسی نظام کی نمائندگی کرتا ہے جس کو مختلف ثقافتی، سماجی اور نسلی پس منظر رکھنے والے لاکھوں مرد وخواتین کی حمایت حاصل ہے۔

طالبان وفد کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر اخوند نے اپنی تقریر میں کہا کہ افغانستان میں ایک اسلامی نظام ہونا چاہیے۔ملک کے تمام قبائل اور نسلی اقلیتیں اس کے مطابق بلاتفریق زندگیاں گزاریں اور باہمی بھائی چارے اور محبت سے رہیں۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہونے کے لیے ان مذاکرات کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ فریقین کے درمیان امن ڈیل کو جنگ زدہ ملک کی مالی اعانت سے مشروط کرنا چاہتے ہیں۔اس ترغیب سے بین الافغان مذاکرات اگر کامیاب ہوجاتے ہیں تو ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر امریکا منتخب ہونے کے لیے ان سے سیاسی فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔

متحارب فریقوں کے درمیان ان پہلے بالمشافہ مذاکرات سے قبل مختلف ملکوں اور گروپوں نے ان سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں فوری طور پر جامع جنگ بندی کریں تاکہ امن عمل کو احسن طریقے سے آگے بڑھایا جاسکے۔ اس کے علاوہ وہ خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق ایک سمجھوتے پر دستخط کریں۔