اسلام آباد۔وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا کہ گھریلو اور صنعتی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہمیں گیس درآمد کرنا پڑے گی۔
سندھ حکومت17 کلومیٹر گیس لائن بچھانے کی اجازت نہیں دے رہی اگر اجازت ملی تو گیس کی کمی کسی حد تک پوری کرسکیں گے جبکہ شعبے کے گردشی قرضے 250 ارب تک پہنچ گئے ہیں۔
اسلام آباد میں وزیراعظم کے معاون خصوصی ندیم بابر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمر ایوب نے کہا کہ سندھ میں اس وقت سندھ گیس کی کمی 250ایم ایم سی ایف ڈی آرہی ہے۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ یہ چیز آرٹیکل 158 سے آگے چلی گئی ہے اور اسی وجہ سے وزیراعظم نے کانفرنس بلائی تھی جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور ان کے نمائندگان بھی موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل کی تجویز پر اس کانفرنس کا مقصد تھا کہ پاکستان میں آگے جاکر گیس کی قیمت مقرر کرنے کے طریقہ پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اپنی گیس کی کمی ہے اس لیے درآمد کرنی پڑے گی اور اس وقت گیس کے شعبے گردشی قرضہ 250 ارب روپے ہے، جس کی وجہ سابقہ حکومتوں کی غلط پالیسیاں ہیں، پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومتوں نے تیل وگیس کے ذخائر کی دریافت کیلئے اقدامات نہیں کیے۔
عمرایوب کا کہنا تھا کہ آگے جا کر گیس کی قیمت کے تعین کے طریقہ کار پر ہمیں باہمی اشتراک سے معاہدہ کرنا پڑے گا اور ہمیں فوری منصوبہ بندی کرکے کام میں تیزی لانا ہوگی۔
اس موقع پر ندیم بابر نے کہا کہ سندھ میں خاص کر کراچی میں گیس کا پریشر کم ہے اور شکایات موصول ہورہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس سوئی سدرن گیس پائپ لائن سسٹم میں تقریباً 1120 سے 1150 ملین کیوبک فٹ گیس شامل ہورہی تھی لیکن آج یہ نمبر گرکر 960 سے 970 پر آگیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر سارے سال کی شرح نکالوں تو140 سے 150 ملین کیوبک فٹ پیداوار میں کمی ہے جبکہ سوئی سدرن کے لیے طلب میں 100 کا اضافہ ہوا ہے اور 250 کی کمی آرہی ہے۔
ندیم بابر نے کہا کہ سوئی ناردرن میں کمی نہیں آرہی جبکہ دونوں کمپنیوں میں فرق وجہ یہ ہے کہ سوئی سدرن یا سندھ میں یہ پوزیشن رہی ہے کہ ہم مقامی گیس استعمال کریں گے اور ایل این جی استعمال نہیں کریں گے۔