شہدا کے والدین نے کمیشن رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ 3ہزار صفحات کی دستاویز جن میں 132 افراد کے بیانات شامل ہیں 2014 کے سانحہ کا ناکافی خلاصہ ہے۔ انہیں توقع تھی کہ تحقیقات سے بہت کچھ سامنے آ جائے گا۔
شہدا کے ایک متاثرہ رشتہ دار نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ ان لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے جو سکیورٹی اورانٹیلی جنس کے انچارج تھے نہ کہ انہیں جو دروازوں پر تعینات تھے۔ سکیورٹی میں کوتاہی کے ذمہ داروں کے خلاف فیصلہ آنا چاہیئے تھا۔ ایسی سزا کی توقع نہیں تھی۔
ایک شہید طالبعلم کے والد اورنگزیب نے بتایا ہے کہ حملے کے بعد جب بیٹے کو ملا تو وہ اسوقت زندہ تھا اور اس نے قتل عام کی منظر کشی بھی کی تھی ۔ میں نے اپنے بیٹے کے بیان کو ریکارڈ کیا تھا جسے کمیشن نے اپنی رپورٹ کا حصہ بھی بنایا۔مجھے یقین ہے کہ یہ ثبوت ذمہ داروں کو قصوروار ٹھہرانے کے لئے کافی ہوگا تاہم ابھی تک امور چلانے والوں کی شناخت نہیں کی گئی ۔