اسٹیبلشمنٹ تسلیم کرے انتخابات میں غلطی ہوئی، فضل الرحمن

کوئٹہ: پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تسلیم کرے کہ انتخابات میں غلطی کی تھی تو ہم آج بھی اپنی آنکھوں پر بٹھانے کو تیار ہیں،  ہمیں چرسیوں اور بھنگیوں کی نہیں سنجیدہ حکومت چاہیے،طاقتور لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری محبت و وفاداری کا مذاق مت اڑاؤ۔

 قوم کو اس حد تک مت لے جاؤ کہ پھر واپس  آنا مشکل ہو جائے،کوئی مائی کا لعل سوچے بھی نہیں کہ چھوٹے صوبوں کے حقوق غصب کریں گے، ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے،  بلوچستان اور سندھ کے جزائر پر قبضے کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ کسی نادیدہ قوت کو عوام کے حق پر ڈاکا ڈالنے کی اجازت دیں گے۔

جو حشر پشاور بی آر ٹی کا ہوا  وہی پورے پاکستان کا ہوا ہے، اب ہمارا میدان میں آنا پاکستان کی بقا کا مقصد ہوسکتا ہے اور کچھ نہیں،سابق حکومت نے سی پیک اور بڑے بڑے منصوبے دئیے لیکن موجودہ حکومت نے نیا ایجنڈا دیا اور  مرغی، انڈے اور کٹے جیسے منصوبے پیش کردئیے، ادارے محترم ہیں اور ان کے سربراہان کا احترام ہے لیکن کوئی غلط کام ہوتو ان سے گلہ کرنا ہمارا حق بنتا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ تسلیم کرے کہ انتخابات میں غلطی کی تھی تو ہم آج بھی اپنی آنکھوں پر بٹھانے کو تیار ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس غیر آئینی قرار پانے کے بعد حکومت  اخلاقی جواز کھو بیٹھی۔


اتوار کوکوئٹہ میں پی ڈی ایم جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ گفتگو سے پہلے ایک قرار داد پیش کرنا چاہتاہوں کہ فرانس میں فرانس کے صدر حکم پر گستاخانہ خاکے عام دیواروں پر چسپاں کیے گئے ہیں جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں، فرانس اور ڈنمارک نے بڑا ظلم کیا ہے، ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام ایک امن پسند دین ہے لیکن آپ کے توہین آمیز اقدامات شدت کی طرف دھکیل رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ ایسے ناپاک اقدامات فوری طور پر روک دیے جائیں، یورپ کی ایک عدالت نے اس کو اظہار آزادی کہنے سے مترادف قرار دیا اور اس کو جرم قرار دیا ہے تو پھر حکمرانوں کی سطح پر اس طرح کام ہوں گے تو پھر ردعمل آئے گا۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میں کراچی میں مریم نواز اور کیپٹن(ر)صفدر کے ساتھ ہونے والے واقعے کی بھرپور مذمت کرتا ہوں اور اس اقدام پر حکمرانوں کو چلو بھر پانی ڈوب مرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور بلاول بھٹو نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کو خوش آمدید کہتا ہوں، دو دن ہوئے ہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس نام نہاد کابینہ میں بنایا گیا اور ایک جعلی صدر کے پاس بھیج دیا گیا اور عدالت میں پیش کیا گیا جہاں طویل سماعتوں کے بعد اس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس دنیا میں کچھ اقدار موجود ہیں تو عدالت کے فیصلے کے بعد انہیں حکومت کرنے کا اخلاقی جواز بھی نہیں رہا لیکن کس بنیاد پر ایک شخص وزارت عظمیٰ اور صدارت کی کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔مو

لانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمارا موقف تھا کہ یہ حکومت جعلی ہے اور اب ہمارے موقف کو مزید تقویت ملی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم آج بلوچستان کی سرزمین پر گفتگو کر رہے ہیں، 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو اختیارات دیے گئے اور کوئی مائی کا لعل سوچے بھی نہیں کہ چھوٹے صوبوں کے حقوق غصب کریں گے، ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے، بلوچستان اور سندھ کے جزائر پر قبضے کی اجازت نہیں دیں اور نہ کسی نادیدہ قوت کو عوام کے حق پر ڈاکا ڈالنے کی اجازت دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تباہ حال معیشت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، پاکستان مسلم لیگ(ن)اور ہمارا اتحاد 5سال مکمل کرکے آخری بجٹ دے رہا تھا تو اگلے سال کا تخمینہ 5فیصد رکھا تھا لیکن ان نالائقوں نے ایک سال میں 1.8فیصد پر لے آئے۔

انہوں نے کہ گزشتہ برس آزادی مارچ میں جس طرح بلوچستان نے ساتھ دیا اس پر میں شکرگزار ہوں، اس وقت بھی میں نے کہا تھا کہ ان حکمرانوں کو وقت دینا تباہی ہوگی، آج کی دنیا میں ریاستوں کی بقا کا دار و مدار معیشت پر ہے، روس کی مثال سب کے سامنے ہے حالانکہ دفاعی لحاظ سے مضبوط تھا لیکن معیشت تباہ ہوئی تو واپس روس بن گیا۔

انہوں نے کہا کہ کیا عمران خان نے کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فارمولا نہیں دیا تھا، انہوں نے دعا کی کہ اللہ میاں بھارت میں مودی جی کی حکومت آئی، جب بھارت نے کشمیر کو ختم کیا تو گھر میں خاموش بیٹھے رہے، ہم کشمیریوں کو جسم کا حصہ سمجھتے ہیں لیکن یہ تاثر دینا کہ پاکستان کا صوبہ بنائیں لیکن اقوام متحدہ میں کشمیر کے نقشے پیش کیے تھے اس میں آل جموں و کشمیر میں گلگت بلتستان کو پیش کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج اس ایک حصے پر ہم قبضہ کریں اور دوسرے پر وہ قبضہ کریں تو پاکستان کے موقف کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے، ہمیں کہتے ہیں اے پی سی کی وجہ سے بھارت خوش ہوتا ہے، بھارت نے اس وقت خوشی منائی جب اس حکومت نے آزاد کشمیر کے وزیراعظم پر غداری کا مقدمہ درج کیا، اور یہ پیغام سرحد پار کشمیریوں اور بھارت کو دے رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم نے کشمیریوں کے خون پر سیاست کی، ان کے خون کو بیچا، کشمیری بچوں اور خواتین کے خون پر سیاست کی اور اس طرح کی پالیسی سے ہمارے موقف کا کیا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ جو حشر پشاور بی آر ٹی کا ہوا ہے وہ پورے پاکستان کا ہوا ہے، اب ہمارا میدان میں آنا پاکستان کی بقا کا مقصد ہوسکتا ہے اور کچھ نہیں۔

پی ڈی ایم کے صدر نے کہا کہ ادارے ہمارے لیے محترم ہیں اور ان کے سربراہان کا احترام ہے لیکن کوئی غلط کام ہوتو ان سے گلہ کرنا ہمارا حق بنتا ہے، اسیٹبلشمنٹ آج بھی اپنی غلطی تسلیم کرے کہ انتخابات میں غلطی کی تھی تو ہم آج بھی اپنی آنکھوں پر بٹھانے کو تیار ہیں۔


ان کا کہنا تھا کہ میں طاقت ور سے طاقت ور کی اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہوں جس کے تحت وہ عوام کو جانور سمجھیں، ہمیں کہا جاتا ہے کہ ایسی حکمرانی تسلیم کرو اور ان کی عزت کرو تو ہمیں تسلیم نہیں۔

انہوں نے کہا کہ این آر او ہماری ضرورت نہیں، اب این آر او تمھاری ضرورت ہے، کہنے لگے ایک کروڑ نوکریاں دوں گا اور اس طرح دھوکا دے کر نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں چرسیوں اور بھنگیوں کی حکومت نہیں چاہیے، ہمیں سنجیدہ حکومت چاہیے، میں آپ کی حکومت کا انکار کرتا ہوں، میں نے پہلے دن آپ کی حکومت تسلیم نہیں کی اور آج بھی اس پر ڈٹا ہوا ہوں۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ سفر جاری ہے اور جاری رہے گا، ظلم سے نکلنا چاہتے ہوتو ہمت کرو آگے بڑھو، پاکستان کے جوانوں اور بزرگوں، ماں اور بہنوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کو آزاد اور خوش حال دیکھنا چاہتے ہوتو جدوجہد کرنا پڑے گی، گھر میں بیٹھے بیٹھے حالات نہیں بدلتے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری فوج ہمیں عزیز ہے، میرے نزدیک فوج کی حیثیت آنکھوں کی پلکیں کی طرح ہیں، پلکیں آنکھوں کی سرحدات کی حفاظت کرتی ہیں اور یہ صرف سرحدات پر رہتی ہیں، لیکن جب کوئی بال آنکھ میں آئے تو آنکھ بے قرار ہوتی ہے اور اس کو نکالنا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ طاقت ور لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری  محبت و وفاداری کا مذاق مت اڑاؤ،قوم کو اس حد تک مت لے جاؤ کہ پھر واپس  آنا مشکل ہو جائے، ہم نے اس ملک کو ایک رکھنا ہے، عوام کے حقوق کی بات کرنی، چھوٹے صوبوں کے حقوق کی بات کرنی، دنیا میں پاکستان کی عزت و وقار کو اونچا کرنا ہے، اسی نقطہ نظر کو لے کر ہمت و جرات سے آگے بڑھنا ہے۔