بھارت ہمیں غیر مستحکم کرنے کیلئے افغانستان کو استعمال کرسکتا ہے، وزیراعظم

 

 اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ خدشہ ہے بھارت ہمیں غیرمستحکم کرنے کے لئے افغانستان کواستعمال کرے گا،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کو نقصان پہنچا۔

 ہمیں ماضی سے نکل کر تجارت،معیشت اور امن کی جانب جانا چاہیے، افغانستا ن میں امن سے پاکستان اور دیگرعلاقوں کو فائدہ ہوگا۔

 اسلام آباد میں پاک افغان تجارت وسرمایہ کاری فورم 2020 سے متعلق تقریب سے خطاب کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ عوامی روابط سے باہمی تعلقات کوفروغ ملتا ہے، افغانستان کے ساتھ ہمارے روابط برسوں سے ہیں، افغانستان کو ہردورمیں خطے میں اہمیت حاصل رہی ہے، بدقسمتی سے گزشتہ 40 سال سے افغانستان میں انتشار ہے، اس انتشار سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا،اس انتشار نے دونوں ممالک میں غلط فہمیوں کو جنم دیا، ہم نے پھر بھی ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔

 افغانستان کے لوگوں کو اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے، بیرونی دباؤ سے افغانستان کے عوام پر رائے مسلط نہیں ہوسکتی۔ پاکستان افغانستان کی ہر حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

 وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم نے بھارت سے دوستی کی کوشش کی لیکن ناکام رہے، ہمیں احساس ہوا کہ بھارت نظریاتی طور پر پاکستان کے خلاف ہے، بھارت میں مودی حکومت اپنے ملک کے ہی مسلمانوں کے خلاف ہے، بھارت میں مسلمانوں سے جو سلوک ہو رہاہے وہ کبھی نہیں ہوا۔

 بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی کوشش پھر بھی کریں گے، پاکستان کو خدشہ ہے بھارت ہمیں غیر مستحکم کرنے کے لئے افغانستان کو استعمال کرے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں ماضی سے نکل کر تجارت،معیشت اور امن کی جانب جانا چاہیے، حکومت کی مخلصانہ کوشش ہے کہ دونوں ممالک میں تجارتی تعلقات ہو، سب کوشش کر رہے ہیں افغانستان میں امن ہو، افغانستا ن میں امن سے پاکستان اور دیگرعلاقوں کو فائدہ ہوگا، افغانستان سے تجارت کے فروغ کے لیے چیمبر آف کامرس سے تعلقات بڑھانے کو کہا گیا ہے، تجارت کے ذریعے خطے میں خوشحالی آئے گی۔ 

ہمارے قبائلی علاقہ جات اور سرحدی علاقوں میں مچنے والی تباہی کا ایک ہی حل ہے دونوں ممالک کے تعلقات اچھے ہوں۔انہوں نے مزید کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ میری حکومت جب سے آئی ہے ہم نے طالبان کی پہلے امریکا سے بات چیت کے لیے بھرپور زور لگایا، اس کے بعد افغان حکومت کے ساتھ اور آج بھی ہماری کوشش ہے کہ تشدد کم ہو۔

وزیر اعظم نے اپنی خواہش اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا خواب ہے کہ یورپی یونین کی طرح ہماری بھی تجارت کے لیے کھلی سرحدیں ہوں اور ہم دعا کرتے ہیں کہ ایک دن ہمارے بھی اس طرح کے تعلقات ہوں۔ اس موقع پر اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ خطے میں تجارتی سرگرمیوں کے فروغ اور سرمایہ کاری کے لیے راہیں ہموار کرنے سے ترقی و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب پاکستان اور افغانستان ملکر ٹرانزٹ ٹریڈ کی راہ میں حائل روکاوٹوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ تاجر برادری اور عوامی سطح پر روابط کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔

 انہوں نے کہا کہ کراسنگ پوئنٹس، بندرگاہوں اور دیگر مقامات پر تاجربرادری کی سہولت اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ جبکہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے سرحد پار کرنے کو مزید تین مقامات پر بارڈر چیک پوائنٹس بھی کھول رہے ہیں۔

انہوں نے آگاہ کیا کہ افغانستان۔پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ (APTTA)کے مذاکرات کی شرائط کا جائزہ لینے کیلئے تشکیل دی گئی، ٹاسک فورس کی مدت سال 2021ء میں ختم ہو رہی ہے اور مستقبل کے ایک جامع تجارتی معاہدے کے لئے سرحد کے دونوں جانب سے اراکین پارلیمان اور اداراتی اسٹیک ہولڈرز سے رائے لینے کی ضرورت ہے۔

افغان پارلیمنٹ ولسی جرگہ کے اسپیکر میر رحمن رحمانی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن کے قیام اور افغان امن عمل مذاکرات میں پاکستان کے کردار کے شکر گزار ہیں۔ پاکستان کیساتھ دوستانہ تعلقات کوقدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے جو آسانیاں پیدا کیں ہیں اس سے نمایاں بہتری آئی ہے اور کنٹینر کے مسئلے کو بھی احسن طریقے سے حل کیا گیا ہے۔ 28 دنوں میں مکمل ہونے والا عمل اب محض تین دنوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔ اضافی کراسنگ پوائنٹس کی سہولت سے بھی تجارت اور آمد ورفت میں بہتری ہوگی۔ دونوں ممالک کے تاجر اور سرمایہ کار دموجود سہولیات سے مستفید ہوسکیں گے۔