وزیر منصوبہ بندی اور ترقی اسد عمر نے کہا ہے کہ 12 اکتوبر کے بعد سے پاکستان میں کورونا کے پھیلاؤ میں 4 گنا اضافہ ہوا ہے اور بدقسمتی سے احتیاطی تدابیر پر اس طرح عملدرآمد نہیں ہو رہا جس طرح پہلی لہر میں ہو رہا تھا۔
اسد عمر نے اسلام آباد میں این سی او سی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ این سی او سی میں ہماری ذمے داری یہ نہیں ہے کہ ہم پیچھے کی طرف دیکھیں کہ کیا ہو چکا ہے، ہماری اولین ذمے داری یہ ہے کہ ہم آگے دیکھیں۔
انہوں نے کہا کہ قوم کی صحت اور روزگار کے دفاع کی ذمےداری این سی او سی کو سونپی گئی ہےجس کے لیے این سی او سی تمام ڈیٹا سائنس کا استعمال کرتی ہے اور ماہرین صحت ان کی رائے کو اہمیت دیتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے آگے کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ سفارشات دیتے ہیں اور کچھ این سی سی کے لیے گزارشات کرتی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اکتوبر کے پہلے ہفتے تک مثبت کیسز کی شرح صرف 2فیصد تھی جبکہ پچھلے ہفتے یہ 8.7فیصد ہو چکا تھا، یعنی چار گنا کا کا اضافہ ہو چکا ہے۔
اسد عمر نے بتایا کہ اس ہفتے یومیہ صرف 8 اموات ہو رہی تھیں اور ہمارے پچھلے چند دن میں اوسطاً 60 سے زیادہ اموات ہو رہی ہیں جبکہ ہسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں اور آکسیجن پر موجود مریضوں میں چار گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
وزیر منصوبہ بندی و ترقی نے مزید کہا کہ میرج ہالز، ریسٹورنٹس اور دوسرے ایسے کئی شعبوں سے وابستہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کو حکومت کےانسداد کورونا کے اقدامات سے معاشی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جس کا ہمیں احساس ہے، لیکن ہمیں یہ مجبوری میں اس لیے کرنا پڑ رہا ہے کہ اگر ہم ایک آدمی کی معاشی بندش کی وجہ سے 100 آدمیوں کی جانی و معاشی نقصان کو روک سکیں تو یہ منطقی بات ہے کہ ہم یہ فیصلہ کریں۔
اس موقع پر انہوں نے لاک ڈاؤن اور پابندیوں سے متاثر ہونے والے شعبوں کے لیے ریلیف پیکج کے اعلان کا عندیا بھی دیا۔