لاہور:پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے اپنی تحریک کے دوسرے مرحلے میں جنوری کے آخر یا فروری کے آغاز میں اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسمبلیوں سے استعفے اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔
اس ناجائز پارلیمنٹ پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں اس لئے اسے چلنے نہیں دیں گے اور اس کا خاتمہ کر کے دم لیں گے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہاہے کہ اگر پاکستان کے اوپر ایک ناجائز حکومت مسلط رہتی ہے،ناجائز حکومت جس کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے جو دھاندلی کی تھی اور گندا اور غیر آئینی کردار اد اکیا تھا اس کے زخم گہرے ہوتے جارہے ہیں اور میں خطرہ محسوس کر رہا ہوں کہ کہیں آنے والے دنوں میں ہمیں وہ حالا ت نہ دیکھنے پڑجائیں جس میں اسٹبیلشمنٹ بمقابلہ عوام نظر آئیں،یہ بڑے تشویشناک حالات ہوں گے۔
پارلیمنٹ عوام کی ہے،حکومت عوام کی ہو گی، طاقت عوام کی ہو گی، اب دھاندلی کا نظام نہیں چلے گا،آنے والے دنوں میں انارکی دیکھ رہا ہوں، انارکی کی طرف جانے سے پہلے حالات کو سنبھال لینا چاہیے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پی ڈی ایم کے زیر اہتمام مینار پاکستان گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جلسے سے مریم نواز، بلاول بھٹو، سردار اختر مینگل، محمود خان اچکزئی، جاوید ہاشمی، اویس نورانی، امیر حیدر خان ہوتی، میاں افتخار سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا۔
مولانا فضل الرحمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج لاہور میں اس فقیدالمثال اجتماع کے انعقاد پر پی ڈی ایم کے کارکنوں اور ملک کے عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آج مینار پاکستان کے میدان میں جگہ کم پڑ گئی ہے، لاہو رکی شاہراہیں انسانی سمندر کی موجوں سے محظوظ ہو رہی ہیں۔
میں آپ کے جذبے اور ولولے کو سلام پیش کرتا ہوں آپ کے ولولے۔ 1940کی قرارداد کے بعد آج اسی مینار پاکستان کے سائے میں آپ جس عزم اور عہد کی تجدید کر ہے ہیں یہ آنے والے مستقبل کے لئے سنگ میل ثابت ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ میں آج پاکستانی سیاست کو طرف اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں جس کا احساس ایک شہری کی حیثیت سے پہلے مجھے ہے،پھر پاکستان کے معاشرے میں اس احساس کو فروغ پاتے دیکھ رہا ہوں۔
گوجرانوالہ کے جلسے سے لے کر تمام بڑے شہروں میں عوام کی بے پناہ شرکت کے ساتھ ہونے والے اجتماعات اور آج یہاں لاہور میں یہ فقید المثال اجتماع سے مجھے کچھ احساسات ہو رہے ہیں،اگرپاکستان کے اوپر ایک ناجائز حکومت مسلط رہتی ہے، اس ناجائز حکومت جس کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے جو دھاندلی کی تھی۔
اس ناجائز اقتدار کے لئے جو گندا اور غیر آئینی کردار اد اکیا تھا اس کے زخم گہرے ہوتے جارہے ہیں اور میں خطرہ محسوس کر رہا ہوں کہ کہیں آنے والے دنوں میں ہمیں وہ حالا ت نہ دیکھنے پڑیں کہ اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ عوام نظر آئے اور ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو جائیں،یہ بڑے تشوشناک حالات ہوں گے۔
میں اسٹیبلشمنٹ کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی عوام کے سامنے مقابلے سے ہٹ جائیں، عوام کو راستہ دیں،عوام کو اسلام آباد پہنچنا ہے، پارلیمنٹ عوام کی ہے،حکومت عوام کی ہو گی، طاقت عوام کی ہو گی، ملک میں دھاندلی کا نظام نہیں چلے گا۔
انہوں نے کہا کہ زخم گہرے ہوتے جارہے ہیں،احساس میں غصے اور ناراضگی کا عنصر بڑھتاجارہاہے ہم خیر خواہی کی بنیاد پر سمجھتے ہیں ہمیں ایک قوم کی طرح رہنا چاہے پاکستان کا نام پاکستانی عوام ہے،اسی عوام میں ادارے بنتے ہیں، اسی عوام میں سے عدلیہ بنتی ہے،اسی عوام میں سے پارلیمنٹ بنتی ہے اسی عوام میں سے فوج بنتی ہے اسی عوام میں سے دفاعی قوت بنتی ہے۔
اگر ادارے ایک دوسرے کے مقابلے میں آتے ہیں،عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈلا جاتاہے تو پھر قومی یکجہتی کبھی بر قرار نہیں رہ سکتی،آنے والے دنوں میں انارکی دیکھ رہا ہوں، انارکی کی طرف جانے سے پہلے حالات کو سنبھال لینا چاہیے۔
آج یہ سارے اجتماعات یہ تحریک یہ جدوجہد پاکستان میں آزاد جمہوری فضاؤ ں کے قیام کے لئے ہو رہی ہے،پاکستان کو مستحکم بنانے کے لئے ہو رہی ہے، اسی مینار پاکستان کے مقدس مقام پر قرارداد پاس کی گئی تھی جو ایک ایسی مملکت کے تصور کے سا تھ تھی کہ ایک طاقتور اسلامی ملک کا قیام عمل میں آئے گا،جو دنیا بھر کے مظلوموں کی آواز بنتا نظر آئے گا، انسانی حقوق کی بات کرتا نظر آئے گا۔
آج 72سال گزرنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی بالا دستی کے نتیجے میں ہمار املک ایک غلام ملک کی طرح نظر آرہا ہے،ہم اپنی آزادی کھو بیٹھے ہیں، آج عہد کریں ہم نے اس ملک کو آزاد رکھنا ہے،اس ملک کو عالمی اسٹیبلشمنٹ سے آزاد رکھنا ہے،فوج کو ان کے دباؤ سے نکالنا ہے،عوام کو اپنی عدلیہ کو ان کے دباؤ سے نکالنا ہے،آزاد قوم کی طرح اپنی شناخت پیدا کرنی ہے۔
اس حوالے سے محسوس کر رہے ہیں وہ کشمیر جسے 73سال تک بھارت ہڑپ کرنے کی جرات نہیں کر سکا آج بھار ت نے کشمیر کو ہڑپ کر لیا ہے اس پر قبضہ کر لیا ہے اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں یا عمران کی حکومت نے پاکستان کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ ہم کشمیر کا تحفظ نہیں کر سکے ہیں یا عمران خان نے کشمیر کا سودا کیا ہے اسے بھارت کے ہاتھوں بیچا ہے۔
آج مگرمچھ کے آنسو بہا رہا ہے لیکن کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے فارمولے کی کس نے بات کی۔ مودی کے انتخابات میں جیتنے کی کس نے دعائیں کی تھیں کہ مودی کامیاب ہو گیا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا او رکشمیر کا یہ حل ہے، ہم کشمیر پر ناجائز قبضے کو قانونی حیثیت دے رہے ہیں، ہم کشمیریوں کو آزدی نہیں دلا سکے، ہم ان کو جمہوریت نہیں دے سکے، معیشت نہیں دے سکے، دین اسلام نہیں دے سکتے پھر کس بنیاد پر کشمیر یوں کے خون پر سیاست کی، خواتین کی عزت اور ناموس پر سیاست کی۔
تمام زعماء نے اس ملک کی صورتحال بیان کی ہے۔ پاکستان کے 72سالوں میں اسٹیٹ بینک بیان دے رہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سارا ابجٹ زیرو سے نیچے چلا گیا ہے، سالانہ ترقی کا تخمینہ صفر سے کم ہو گیا ہے،معیشت کی یہ ابتری ہے کہ غریب بیروزگار ہے مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے غریب کی قوت خرید کو ختم کر دیا ہے، نوجوان کو سبز باغ دکھائے گئے تھے آج اس کے مستقبل کو تاریک بنا دیا گیا ہے اس کو بیروزگار بنا دیا گیا ہے،سرکاری اداوں سے سے تیس لاکھ ملازمین بر طرف کر دئیے گئے ہیں، ادارے کھوکھلے ہو چکے ہیں،دیوالیہ ہوچکے ہیں، ملک چل نہیں رہا ہے۔
جب ایک طر ف حکومت نا اہل ہے ناجائز ہے پھر اس کو بر قرار رکھنے کے لئے فرشتوں او رجنات نہیں آنا، عوام نے کردار ادا کرنا ہے،قوم نے کردار ادا کرنا ہے، جوانوں نے کردار ادا کرنا ہے عوام نے کردار اد اکرنا ہے اس لئے آپ کے پاس آئے ہیں کہ قوم بن کر اپنے مستقبل کو بچائیں اور اس کا تحفظ کریں۔
آج ہر شعبہ زندگی سے وابستہ لوگ پریشان ہیں،اضطراب کا شکار ہیں، اس ملک کا غریب مزدور کسان استاد ڈاکٹر وکیل نوجوان طالبعلم ہر ایک پریشان ہے اور اپنی زبوں حالی کو رو رہا ہے۔
اگر ہم نے ملک کو مطمئن کرنا ہے اس کے ہر شعبے سے وابستہ لوگوں کو مطمئن کرنا ہے آئیں اور انقلاب برپا کر دیں، ہمت کر یں اور انقلاب برپا کریں،تبدیلی اس طرح نہیں ہو گی،نعرے تو لگاتے رہیں لیکن عالمی اسٹیبلشمنٹ کی غلامی کی طرف چلے جائیں، ہم غلامی کے لئے پیدا نہیں ہوئے، ہماری ماؤں نے ہمیں غلام بنانے کے لئے نہیں جنا، آپ آزاد قوم ہیں،ملک کو بھی بچانا ہے اس کو ترقی بھی دینی ہے۔
انہوں نے مجھے کسی نے انٹر ویو میں پوچھا کہ عمران خان بھی کہتا تھاکہ دھاندلی ہوئی ہے آپ بھی کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے آپ بھی احتجاج کر رہے ہیں دونوں میں کیا فرق ہے۔ تو میں نے کہا کہ اس وقت الیکشن کمیشن متنازعہ نہیں تھا آرٹی ایس کا سسٹم بند نہیں ہوا یہ ساری چیزیں نہیں تھیں، پہلے عمران خان کو چار حلقوں پر اعتراض تھا، پھر کہادس حلقوں پر اعتراض ہے، پھر ستر پر اعتراض ہے تو ہم نے کہا بسم اللہ لیکن وہ پھر بھی دھرنے پر آگیا و ہ دھرنا کسی نے کرایا، حکومت میں آیا تو حکومت کسی نے چلائی۔
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ جس نے اس تحریک کا آغاز کیا ہے اور اس تحریک کے آغاز میں ہم نے جو مقاصد متعین کئے ہیں ان مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے ہم آپ کے سامنے وہ مقاصد بیان کرنا چاہتے ہیں۔
پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں جن نکات پر اتفاق رائے کیا ہے اس میں سب سے پہلے آئین پاکستان کی،اسلامی،جمہوری،پارلیمانی اور وفاقی حکومت کا تحفظ کرنا اور آئین کی اس حیثیت کو عملی شکل دلانا اور عملی اقدامات کرنا شامل ہے۔
اس بات پر بھی اتفاق رائے کیا گیا کہ پارلیمنٹ کی خود مخاری ہو گی پارلیمنٹ کو کسی کا یرغمال نہیں ہونے دیا جائے گا،سیاست سے اسٹیبلشمنٹ انٹیلی جنس اداروں کے کردار کا خاتمہ کیا جائے،آزا دعدلیہ کے قیام کا تصور دیا جائے گا، آزادانہ غیر جانبدابہ منصفانہ انتخابات کے لئے اصلاحات انعقاد کیا جائے گا، عوام کے بنیادی انسانی او رجمہوری حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔
صوبوں کے حقوق،اٹھارویں ترمیم کا تحفظ، مقامی حکومتوں کا موثر نظام، اظہار رائے میڈیا کی آزدای رائے کا تحفظ، انتہا پسند پسندی اور دہشتگردی کا خاتمہ، مہنگائی،بیروزگار ی کے خاتمے کے لئے ہنگامی معاسی پلان بنیاد مقاصد ہیں۔
انہوں نے اعلان کیا کہ انشااللہ جنوری کے آخر میں یافروری کے شروع میں اسلام آباد کی طرف پوری قوم مارچ کرے گی اور پارلیمنٹ کے استعفے اپنے ساتھ لے کر جائینگے، ہم اس پارلیمنٹ پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں، ہم ناجائز حکومت کو چلنے نہیں دیں گے اوراس کا خاتمہ کر کے دم لیں گے، ووٹ کا تقدس یقینی بنا کر دم لیں گے۔