اسلام آباد:ملک میں پٹرول کی قلت کے حوالے سے کی گئی تحقیقاتی کی تفصیلی رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے جس میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کو پیش کردہ پٹرول بحران کی تحقیقاتی رپورٹ میں ایف آئی اے نے بحران کا ذمہ دار پٹرولیم ڈویژن کے ذیلی اداروں کو ٹھہرا دیا ہے۔
رپورٹ میں پٹرول بحران کے دوران کمپنیوں کے پاس وافر ذخیرہ موجود ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیاں پٹرولیم بحران کا باعث بنیں۔پٹرول پمپس کو جان بوجھ کر پٹرولیم کی سپلائی روکی گئی۔
کمپنیوں کے پاس ذخیرہ ہونے کے باوجود مصنوعی بحران پیدا کیا گیا۔بحران کے دوران حکومتی اداروں نے کمپنی کے ذخیرے کی جانچ پڑتال نہیں کی۔تحقیقاتی رپورٹ میں بحران کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کاروائی کی سفارش کی گئی ہے۔
ایف آئی اے کے وزارت پڑولیم سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات بھی رپورٹ کا حصہ ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ویٹرنری ڈاکٹر شفیع آفریدی کو وزارت میں ڈی جی آئل لگانے کا انکشاف ہوا ہے۔شفیع آفریدی کے پاس آئل سیکٹر میں کوئی تجربہ نہیں۔
دستاویزات کے مطابق تحقیقاتی اداروں نے پٹرولیم ڈویڑن سے سوال کیا کہ شفیع آفریدی کی خلاف ضابطہ تقرری کیوں کی گئی۔پٹرولیم ڈویژن کے ذیلی اداروں کے درمیان رابطوں کا فقدان بھی بحران کی وجوہات میں شامل ہے۔
دریں اثناء لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کی رپورٹ کے اجرا میں مزید مہلت کی درخواست مسترد کر تے ہوئے پٹرولیم بحران انکوائری کمیشن کی رپورٹ فوری پبلک کرنے کا حکم دے دیا،ساری کابینہ مل کر کہہ دے کہ اس رپورٹ نے پبلک نہیں ہونا تو پھر بھی رپورٹ پبلک ہوگی،30 دن کیا آپ نے اس رپورٹ کو مائیکرو ویو میں رکھنا ہے؟، وفاقی حکومت نے 3 دسمبر کو میٹنگ میں رپورٹ پیش کرنا تھی، کیا یہ لکھ دوں کہ یہ حکومتی بدنیتی ہے؟۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے وفاقی حکومت کی رپورٹ کے اجرا میں مزید مہلت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کمیشن کی رپورٹ فوری پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ رپورٹ وزیراعظم کو موصول ہو چکی اور انہی کے حکم کے مطابق (آج) منگل کو کابینہ میں پیش کی جائے گی۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ 2 دسمبر کو بھی آپ لوگوں نے کہا تھا کہ رپورٹ حکومت کو بھیج دی ہے، کیا حکومت ہر تاریخ پر یہی کھیلتی رہے گی کہ آئندہ تاریخ میں رپورٹ کابینہ میں رکھی جا رہی ہے؟، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جب دل کرے گا تب رپورٹ منظر عام پر لائی جائے پٹرولیم کمیشن کے سربراہ ابوبکر خدا بخش نے بتایا کہ ہم نے عالمی منڈی میں پٹرول کی گرتی ہوئی قیمتوں سے فائدہ نہیں اٹھایااس حکومتی کوتاہی سے بھی اربوں روپے نقصان ہوا۔
ڈاکٹر شفیع آفریدی جسے ڈی جی آئل تعینات کیا گیا وہ ویٹرنری ڈاکٹر ہے، ایرانی پٹرول کا جہاز پکڑا گیا تو اسے ملی بھگت سے پاکستان میں بیچا جاتا رہا، عامر عباسی جو بائیکو ریفائنری کے مالک ہیں جو نیب کو مطلوب ہیں، جو بندہ قانون کا بھگوڑا ہو اسکو لائسنس جاری نہیں ہو سکتا، ملزم پر 23 ارب کا الزام ہے اور نیب نے سندھ میں سوا ارب روپے میں پلی بارگین کرلی۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ کہ اس کا مطلب ہے ایک بندہ جس پر 23 ارب روپے کا الزام ہے اسے سوا ارب میں دھو کر صاف ستھرا کر دیا، چیئرمین اس طرح کی پریس کانفرنسز کرتے ہیں کہ اتنے پیسے ریکور کر لئے، حکومت کے 4 دن پہلے ریٹ بڑھانے کی وجہ سے 7 کمپنیوں نے 2 ارب روپے کما لیے۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو لوگ عہدوں پر نہیں رہے ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے، 4 دن پہلے قیمت بڑھانے سے ریاست کو نقصان ہوا ہے وہ کس سے ریکور کیا جائے۔