اسلام آ باد: وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم قیادت کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم آپ کے مطالبے کو مسترد کرتے ہیں، نہ تو وزیر اعظم عمران خان مستعفی ہوں گے اور نہ ہی اسمبلیاں تحلیل ہوں گی۔
اگر آپ بات کرنا چاہتے ہیں مہنگائی، شفاف انتخابات، این ایف سی ایوارڈ یا جس مسئلہ ہر بات کرنا چاہتے ہیں تو آئیے بات کیجئے لیکن آپ کی ذاتی خواہشات کو ہم مسترد کرتے ہیں۔
،اگر کرونا کی وجہ سے شرح اموات میں اضافہ ہوا تو اس کی ذمہ داری اپوزیشن پر عائد ہوگی،اگر آپ کا استعفوں پر اتفاق ہے اور آپ سنجیدہ ہیں تو 31 تاریخ تک آپ کے استعفے اسپیکر کے پاس ہونے چاہئیں، پارٹی قیادت کے پاس استعفے رکھنا محض دکھاوا ہے۔
لانگ مارچ کے حوالے سے بھی پی ڈی ایم میں اتفاق نہیں ہے، اگر ان کے جلسے میں جان ہوتی تو اسٹاک مارکیٹ کریش کر رہی ہوتی گین نہ کر رہی ہوتی، یہ اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری میڈیا پر ڈال رہے ہیں،آپ اپنے مطالبے وہ کریں جو آئین اور جمہوریت سے مطابقت رکھتے ہوں۔
میں بلاول سے کہتا ہوں کہ بیٹا سیاست میں دروازے بند نہیں ہوتے آپ کو ابھی تربیت کی ضرورت ہے،اپوزیشن کا اتحاد غیر فطری ہے اس کے پیچھے کوئی دوررس سوچ نہیں ہے، سیاست میں ڈھٹائی نہیں ہوتی بلکہ راستے تلاش کیے جاتے ہیں، آج بھی میں کہتا ہوں کہ قومی مفادات اور ذاتی مفادات کو آپس میں مت ملائیے اور ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر فوقیت مت دیجئے۔
سعودی عرب کے ساتھ ہمارے دیرینہ برادرانہ تعلقات ہیں انہوں نے ہمیشہ مشکل وقت میں ہماری مدد کی۔
منگل کو پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین و وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی)میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ کانفرنس بطور نائب کپتان کر رہا ہوں، 13 دسمبر کے بعد پی ڈی ایم کافی مایوسی کا شکار ہے، انہوں نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہم نے ان سے گذارش کی کہ کرونا وبا کی دوسری لہر شدت اختیار کر رہی ہے اموات میں اضافہ ہو رہا ہے، اگر کرونا کی وجہ سے شرح اموات میں اضافہ ہوا تو اس کی ذمہ داری اپوزیشن پر عائد ہوگی۔
پی ڈی ایم نے ہماری گزارش پر کوئی توجہ نہ دی، لاہور کے جلسے میں کوئی نہیں بات نہ تھی یہی باتیں وہ گذشتہ جلسوں میں کر چکے ہیں، میں واضح طور پر اندر کی بات کہہ رہا ہوں کہ استعفوں کے معاملے پر ان کے اندر ابہام ہے، پیپلز پارٹی میں فیصلہ کن قوت نہ جلسے میں تھی اور نہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں تھی۔
بلاول تو دکھاوے کے لیے ہے پیپلز پارٹی کے فیصلے آج بھی زرداری صاحب کرتے ہیں اور انہوں نے ابھی تک استعفوں کا فیصلہ نہیں کیا، پی ایم ایل میں استعفوں کے حوالے سے دو دھڑے ہیں ایک مریم صاحبہ کا ہے اور دوسرا شہباز شریف صاحب کا ہے دونوں میں یکسوئی نہیں ہے،اگر آپ کا استعفوں پر اتفاق ہے اور آپ سنجیدہ ہیں تو 31 تاریخ تک آپ کے استعفے اسپیکر کے پاس ہونے چاہئیں، پارٹی قیادت کے پاس استعفے رکھنا محض دکھاوا ہے،یہ پریشر بڑھانے کا ایک طریقہ ہے۔
لانگ مارچ کے حوالے سے بھی پی ڈی ایم میں اتفاق نہیں ہے، جاتی امرا میں ہونیوالی نشست میں کہا گیا کہ پہلی فروری کو پی ڈی ایم کا اجلاس بلایا جائے گا اور تاریخ کا اعلان کیا جائے گا، 13 تاریخ کو کارکنوں کو دعوت دی گئی اور کارکن آ گئے عوام کو لانے میں پی ڈی ایم ناکام رہی، آپ صرف شہر لاہور کو دیکھئے اگر لاہور والے بھی آ جاتے تو پی ڈی ایم کو مایوسی نہ ہوتی، لاہور سیاست کا مرکز ہے لاہوریوں نے ان کو اپنافیصلہ سنا دیا۔۔
میں وزیر اعظم عمران خان کی ترجمانی کرتے ہوئے کہہ رہا ہوں کہ نہ تو وزیر اعظم مستعفی ہوں گے اور نہ ہی اسمبلیاں تحلیل ہوں گی، اگر آپ بات کرنا چاہتے ہیں مہنگائی، شفاف انتخابات، این ایف سی ایوارڈ یا جس مسئلہ ہر بات کرنا چاہتے ہیں تو آئیے بات کیجئے لیکن آپ کی ذاتی خواہشات کو ہم مسترد کرتے ہیں۔
پی ڈی ایم کا بیانیہ پٹ چکا لاہور پنجاب کا گڑھ ہے آپ نے تمام وسائل کا رخ لاہور کی طرف موڑا لیکن لاہور کے لوگ باشعور ہیں انہوں نے قومی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ کے بیانیے کو رد کیا۔