لاہورہائی کورٹ نے نیب کو چوہدری برادران کی آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات 4 ہفتوں میں مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔
لاہور ہائی کورٹ میں چوہدری برادران کے خلاف نیب انکوائریوں اور چیئرمین نیب کے اختیارات کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔
چوہدری برادران کے وکیل نے عدالت عالیہ کے روبرو موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل پر آمدن سے زائد اثاثوں اور غیر قانونی بھرتیوں کے الزامات ہیں، 2016 میں آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس کو نیب نے بند کر دیا تھا۔
ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم نے عدالت کو بتایا کہ 2000 میں گجرات کے رہائشی نے چوہدری برادران کے خلاف شکایت درج کرائی، اس وقت کے چیئرمین نیب نے محکمہ اینٹی کرپشن کو تحقیقات کا حکم دیا، 2010 میں نیب لاہور نے چیئرمین نیب کو چوہدری برادران کے کیس سے متعلق خط لکھا، 2014 میں اعلیٰ سطح کمیٹی نے 2 ماہ میں اس کیس کو دیکھ کر جلدی مکمل کرنے کی ہدایت کی، 2017 میں اس کیس پر دوبارہ کام ہوا اور چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت کو طلب کیا گیا،چوہدری برادران کو اثاثوں سے متعلق پرفارما دیا گیا، ہم چوہدری برادران کے خلاف تحقیقات چھ ماہ میں مکمل کر لیں گے۔
جسٹس صداقت علی خان نے ڈی جی نیب لاہور سے استفسار کیا کہ اگر ایک شخص ٹیکس دے رہا ہے اور اس کے تمام اثاثے ڈکلیئر ہیں پھر آپ اس کے خلاف تفتیش کیسے شروع کرتے ہیں، آپ کے اپنے کتنے اثاثے ہیں اور آپ جب لیفٹیننٹ تھے تب آپ کی تنخواہ کتنی تھی؟
عدالت عالیہ کے استفسار پر شہزاد سلیم نے کہا کہ ان کے اثاثوں کی مالیت 4 کروڑ روپے ہے، وہ اس وقت نیب سے ماہانہ 5 لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں، اور لیفٹیننٹ کی حیثیت سے تنخواہ سے متعلق اس وقت ریکارڈ میرے پاس نہیں۔ جس پر جسٹس صداقت علی نے ریمارکس دیئے کہ کسی وقت تسلی سے آپ سے آپ کے بارے میں پوچھیں گے۔ نیب چوہدری برادران کی آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات 4 ہفتوں میں مکمل کرے۔