اسلام آباد:سپریم کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں ضمانت کی درخواست پر ریمارکس د یئے کہ چیئرمین نیب کے سوا کوئی ایک شخص بتائیں جو نیب کی تعریف کرتا ہو۔
جمعرات کوسپریم کورٹ میں جعلی بینک اکاونٹس کیس میں ڈاکٹر ڈنشا اور جمیل بلوچ کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی جس میں جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ عدالت موجودہ کیس میں نیب کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، 20ماہ سے ایک بندہ جیل میں ہے جبکہ مرکزی کردار آزاد گھوم رہے ہیں۔
جسٹس عمر عطا نے ریمارکس دئیے کہ نیب کی وجہ سے لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے، جاپان میں احتساب اور قانون کی بالادستی ہمارے لیے ایک مثال ہے۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے مکالمہ کیا کہ ایک بڑے آدمی کو موٹروے پر گرفتار کرلیا جاتا ہے جیسے وہ کہیں بھاگ جائیگا، چیئرمین نیب اور آپ کے سوا ایک شخص بتائیں جو نیب کی تعریف کرتاہو۔جسٹس عمر عطا کا کہنا تھا کہ عوامی عہدہ رکھنے والوں کا احتساب ہر صورت ہونا چاہیے لیکن نیب اپنے قانون کا اطلاق سب پر یکساں نہیں کررہا۔
سپریم کورٹ نے جعلی بنک اکاونٹس کیس کے ملزمان ڈاکٹر ڈنشا اور جمیل بلوچ کی ضمانت کیس میں آئندہ سماعت پر چیئرمین نیب کو طلب کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیب قانون کے مطابق اور شفافیت کیساتھ دیگر ملزمان کیخلاف کارروائی کرے،تمام ملزمان کیساتھ یکساں سلوک کیا جائے،احتساب کیلئے تحقیقات کرنا نیب کے اختیار میں ہے،شہریوں کی آزادی اور بنیادی حقوق کا تحفظ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔
جمعرات کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔دور ان سماعت عدالت عظمی نے کہاکہ اگر نیب پیش رفت دکھانے میں ناکام رہا تو آئندہ سماعت پر چیئرمین نیب ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔عدالت نے کہاکہ 29 ملزمان میں سے 2 کے علاوہ دیگر کیخلاف کاروائی نہ کرنے کی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ ڈاکٹر ڈنشا جیسے عمر رسیدہ شخص کو پکڑ لیا باقی 27 لوگ آزاد ہیں،سب جانتے ہیں کہ 62 اور 42 منزلہ دو عمارتیں کس کی ہیں۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقو ی نے کہاکہ انہی وجوہات کیوجہ سے نیب پر صبح سے شام تک باتیں ہوتی ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ نیب کیوجہ سے لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ برطانیہ میں بیٹھ کر ایک شخص نے پلی بارگین کی درخواست دی اور نیب نے قبول کر لی۔
عدالت عظمیٰ نے نیب سے تمام ملزمان کیساتھ یکساں سلوک کرنے کے حوالے سے اقدامات کی تفصیل طلب کرتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے پالیسی دو ہفتے میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ سے کئی ملزمان کی ڈھائی سال بعد ریفرنس دائر نہ ہونے پر ضمانتیں ہوئیں،عوامی عہدہ رکھنے والوں کا احتساب ہر صورت ہونا چاہیے تاہم نیب اپنے قانون کا اطلاق سب پر یکساں نہیں کر رہا۔
انہوں نے کہاکہ نیب نے ایک سال سے ملزمان کی پلی بارگین درخواستوں پر فیصلہ کیوں نہیں کیا۔ بعد ازاں کیس کی سماعت آئندہ برس 6 جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔