اسلام آباد:وزیر اعظم عمران خان نے بجلی و گیس کے مسئلہ کی وجہ سے کئی بار نیند نہیں آتی۔ اس امر کی تصدیق عمران خان نے منگل کواسلام آباد میں وزارتوں کی کارکردگی سے متعلق ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کی ہے۔
وزیراعظم نے وزارتوں کو کارکردگی بہتر بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جتنا بھی باقی وقت رہ گیا ہے اس میں ہمیں گورننس کی کارکردگی کو بہت آگے لے کر جانا ہے کیونکہ اب ہمارے پاس عذر نہیں ہے کہ ہم سیکھ رہے ہیں، اب کارکردگی کا وقت آ گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی کا شعبہ اتنا پیچیدہ ہے کہ مختلف چیزوں کا انضمام کرنا ہے تاکہ ہم عوام کو ایک ایسی بجلی دے سکیں جو ان کی استطاعت میں ہو اور ساتھ ساتھ ہم گردشی قرضوں کے پہاڑ کو بھی کم کر سکیں۔عمران خان نے کہا کہ سب سے بڑا چیلنج وزارت توانائی کا نظر آ رہا ہے، یہ پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج ہے اور وزارت توانائی کے بارے میں سوچ کر کئی دفعہ رات میں نیند بھی نہیں آتی۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کے لیے اولین چیلنج توانائی کا ہے، اس میں کئی عوامل ہمارے کنٹرول میں ہیں اور کئی ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ امریکا میں صدارتی انتخاب کے بعد جو بائیڈن کو ٹیم سلیکٹ کرنے کے لیے ڈھائی مہینے ملے ہیں جبکہ ہم تو اپنے نمبر پورے کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جس دن امریکا کا الیکشن ختم ہوا ہے اسے تیاری، ٹیم کے انتخاب کے لیے ڈھائی مہینے ملے ہیں، بریفنگ مل رہی ہیں اور بیورو کریٹس انہیں بتا رہے ہیں کہ ہر چیز کی کیا صورتحال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس نظام پر نظرثانی کرنی چاہیے اور جب آپ کی ٹیم بن جائے اس کے بعد آپ کو حکومت سنبھالنے سے پہلے پورا وقت ملنا چاہیے تاکہ آپ خصوصی طور پر حکومت کی تیاری کریں کہ آپ نے گورننس کیسے کرنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کو بجلی، ریلوے، گیس اور مالیات کے حوالے سے بریفنگ ملنی چاہئیں تاکہ جب آپ دفتر سنبھالیں تو آپ کو پوری طرح پتا ہو کہ میں نے کس ایجنڈے پر عملدرآمد کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تو تین مہینے صرف سمجھنے میں لگ گئے، ہر چیز جو ہم باہر سے بیٹھ کر دیکھ رہے تھے، جب حکومت آئی تو وہ بالکل مختلف تھی۔عمران خان نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ خصوصا توانائی سمیت کئی شعبوں میں ڈیڑھ سال تک اصل اعدادوشمار کا ہی پتا نہیں چل رہا تھا، کبھی وزارت سے کوئی اعدادوشمار آ جاتی تھی، ہم سمجھتے تھے کہ بڑا اچھا کررہا ہے، پتا چلتا تھا کہ کوئی اور اعدادوشمار آ گئے اور ہم اتنا اچھا نہیں کررہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی نئی حکومت کو اس طرح اقتدار میں نہیں آنا چاہیے، اس کی پوری تیاری ہونی چاہیے، اس کو اس طرح پوری بریفنگ دینی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ہم دیکھ کر سیکھتے رہے اسی طرح وزارتوں کا بھی معاملہ ہے، کچھ وزارتوں نے زیادہ بہتر کارکردگی دکھائی ہے، کئی نے نہیں دکھائی اور کئی سیکھ رہے ہیں جس سے ان کی کارکردگی بہتر ہو رہی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد اختیارات تقسیم کیے گئے ہیں تاہم مجھے لگتا ہے کہ ابھی پورے ملک کو 18ویں ترمیم کی پوری طرح سمجھ نہیں ہے، مثلا فوڈ سیکیورٹی وفاقی حکومت کے پاس ہے لیکن اختیارات صوبائی حکومتوں کے پاس چلے گئے ہیں، اب اگر ایک صوبہ مرکز کے ساتھ نہیں چلتا اور اپنی الگ پالیسی بناتا ہے تو اس سے قیمتوں میں فرق آ جاتا ہے جس سے تمام قیمتوں کا توازن بگڑ جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماحولیات کی وزارت صوبوں کے پاس چلی گئی ہے لیکن اسے وفاق کے پاس ہونا چاہیے کیونکہ سارے ملک کی ماحولیات ہے، اسی طرح ہم کئی چیزیں سیکھتے جا رہے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ آج بڑا اچھا قدم اٹھایا ہے کہ ہر وزارت کی کارکردگی کی جانچ ہو گی، یہ بالکل درست سمت میں قدم ہے، جب تک ساری وزارتیں کارکردگی نہیں دکھائیں گی اس وقت تک ہم گورننس نہیں کر سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماحولیات کی وزارت صوبوں کے پاس چلی گئی ہے لیکن اسے وفاق کے پاس ہونا چاہیے کیونکہ سارے ملک کی ماحولیات ہے، اسی طرح ہم کئی چیزیں سیکھتے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم اب اپنے اوپر دبا ڈالیں گے، جو وقت باقی رہ گیا ہے اس میں ہمیں گورننس کی کارکردگی کو بہت بہتر بنانا ہے کیونکہ اب ہمارے پاس عذر نہیں ہے کہ ہم سیکھ رہے ہیں، ہم نئے ہیں یا تجربہ نہیں ہے، اب کارکردگی کا وقت آ گیا ہے۔
انہوں نے وزرا کو کہا کہ وہ اپنے اوپر دباؤ ڈالیں اور جو کنٹریکٹ سائن کیے ہیں ان پر وزارتوں کی جانچ پڑتال کی جائے گی، ہر وزارت اپنے اوپر بھی دبا ڈالے گی کہ ہمیں اہداف پورے کرنے ہیں۔
وزیر اعظم نے سبسڈیز کو بھی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم تقریبا ڈھائی ہزار ارب روپے کی سبسڈیز دے رہے ہیں، ہر ملک میں سبسڈیز ہوتی ہیں جس کا مقصد کمزور طبقے کی مدد کرنا ہوتا ہے اور دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو علاقے پیچھے رہ گئے ہیں انہیں مراعات دی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ سبسڈیز کو ہمیں مواقع پیدا کرنے لیے استعمال کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کو روزگار ملے لیکن کئی سبسڈیز ایسی ہیں جو غریب آدمی کو بھی مل رہی ہیں اور عمران خان، صنعت کار اور پیسے والے کو بھی وہ مل رہی ہے، تو ہم نے ان سبسڈیز کو غریب لوگوں کے لیے ہدف بنانا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جب تک ہم اپنے ملک کو برآمدات پر نہیں لگاتے تو ہم کبھی بھی اس صورتحال سے نہیں نکلیں گے، ہمیں برآمدات پر زور دینا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں زراعت کے شعبے پر توجہ دینی ہے، روزگار میں اگر ہم پیداوار بڑھاتے ہیں تو یہ ناصرف ہمیں روزگار فراہم کرتا ہے بلکہ فوڈ سیکیورٹی اور ملک کو بہتر بنا سکتے ہیں، اس سلسلے میں ہمیں چین کا بہت فائدہ ہے یونکہ ہم سی پیک میں چین سے زراعت پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اب ملک کے اہم مسائل کی فہرست بنا کر انہیں ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے اور اگر اس میں کہیں بھی رکاوٹ آتی ہے تو وزارتوں پر جرمانہ کیا جائے گا۔عمران خان نے کہا کہ ہم نے اب ہر اس چیز کو ترجیح دینی ہے جس سے ڈالر بچتے ہیں یا ملک میں ڈالر آتے ہیں کیونکہ ہمیں ڈر یہ ہے کہ ہمارے کرنٹ اکاؤنٹ پر دباؤ پڑنا شروع ہو جائے گا۔