اسٹیل ملز کی حالت کی ذمہ دار انتظامیہ ہے، ملازمین سے پہلے افسران کو نکالیں۔ سپریم کورٹ

 چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے پاکستان اسٹیل مل کی حالت زار کا ذمہ دار انتظامیہ کو قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ ملازمین سے پہلے تمام افسران کو نکالیں۔ فاضل جج نے کہا کہ آج اسٹیل مل سے سب کو فارغ کرنے اور مل کو تالا لگانے کا حکم دیں گے،کیونکہ عملی طور پر اسٹیل مل کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔

سپریم کورٹ اسلام آباد میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے اسٹیل مل ملازمین کے پروموشن کیس کی سماعت کی اور کہا کہ انتظامیہ کی ملی بھگت کے بغیر کوئی غلط کام نہیں ہوسکتا، عدالت نے وزیر منصوبہ بندی، وزیر نجکاری اور وزیر صنعت و پیداوار کو فوری طلب کرلیا ۔

چیف جسٹس نے پاکستان اسٹیل مل انتظامیہ کی سخت سرزنش کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا حکومت نے اسٹیل مل انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی؟ مل بند پڑی ہے تو انتظامیہ کیوں رکھی ہوئی ہے؟

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بند اسٹیل مل کو کسی ایم ڈی یا چیف ایگزیکٹو کی ضرورت نہیں، اسٹیل مل انتظامیہ اور افسران قومی خزانے پر بوجھ ہیں، ملازمین سے پہلے تمام افسران کو اسٹیل مل سے نکالیں۔

پاکستان اسٹیل مل کے وکیل نے عدالت میں بتایا کہ تمام انتظامیہ تبدیل کی جاچکی ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انتظامیہ تبدیل کرنے سے کیا مل فعال ہوجائے گی؟

چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کے علاوہ پوری دنیا کی اسٹیل ملز منافع میں ہیں، اسٹیل مل میں اب بھی ضرورت سے زیادہ عملہ رہے گا۔

وکیل اسٹیل مل نے بتایا کہ اٹھارہ سو سے زائد افسران تھے 439 رہ گئے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ مل ہی بند پڑی ہے تو 439 افسران کیا کر رہے ہیں؟

پاکستان اسٹیل مل کے وکیل نے بتایا کہ مل کا روزانہ خرچ 2 کروڑ تھا جو اب ایک کروڑ رہ گیا ہے، شاہد باجوہ نے بتایا کہ اب تک 49 فیصد ملازمین نکال چکے، مزید کیلئے عدالتی اجازت درکار ہے۔

وکیل اسٹیل مل نے کہا کہ لیبر کورٹ کی اجازت کے بغیر مزید ملازمین نہیں نکال سکتے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اجازت براہ راست سپریم کورٹ دے گی لیکن پہلے افسران کو نکالیں۔

وکیل شاہد باجوہ نے بتایا کہ اسٹیل مل ملازمین میں اسپتال اور اسکولوں کا عملہ بھی شامل ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آج سے کسی ملازم کو ادائیگی نہیں ہوگی، جب مل نفع ہی نہیں دیتی تو ادائیگیاں کس بات کی، ملازمین کو بیٹھنے کی تنخواہ تو نہیں ملے گی۔

وکیل ملازمین نے عدالت میں کہا کہ اسٹیل مل ملازمین کام کرنے کو تیار ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسٹیل مل میں بعض لوگوں نے بھرتی سے ریٹائرمنٹ تک ایک دن بھی کام نہیں کیا، مل کا 212 ارب کا قرضہ کون ادا کرے گا؟ مینجمنٹ اور ورکرز کو ادارے کا احساس ہی نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مفت کی دکان سے جس کا جی چاہتا ہے لے جاتا ہے، اسٹیل مل کو کسی بھی ورکر یا افسر نے اپنا خون نہیں دیا، جسٹس اعجازالاحسن نے کیس میں ریمارکس دیئے کہ مل بند ہے لیکن ملازمین ترقیاں مانگ رہے ہیں، یہ اسٹیل مل کبھی ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ورکر اپنے پیسے لینے کیلئے ٹریک پر لیٹ جاتے ہیں، وکیل ملازمین نے استدعا کی کہ مل بند پڑی ہے تو حکومت چلائے۔

کیس کی سماعت کے دوران سیکرٹری صنعت و پیداوار عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ اسٹیل مل کی نجکاری ایڈوانس مرحلے میں داخل ہوچکی ہے،

رواں سال ستمبر میں نجکاری ہوجائے گی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ چار ہزار ورکرز212 ارب کے قرضے، ایسے کون اسٹیل مل خریدے گا؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسٹیل مل کے چیئرمین کہاں ہیں؟

وکیل اسٹیل مل نے بتایا کہ چیئرمین بیرون ملک ہیں، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اسٹیل مل چیئرمین سرکاری خرچے پر بیرون ملک ہیں؟ وکیل نے جواب میں بتایا کہ چیئرمین اپنے خرچے پر باہر گئے ہیں، وہ تنخواہ بھی نہیں لے رہے، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سیکرٹری صاحب بابو والا کام نہیں افسر والا کام کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں کوئی وفاقی سیکرٹری کام نہیں کر رہا، تمام سیکرٹریز صرف لیٹر بازی ہی کر رہے ہیں جو کلرکوں کا کام ہے، سمجھ نہیں آتا حکومت نے سیکرٹریز کو کیوں رکھا ہوا ہے۔

سپریم کورٹ نے منصوبہ بندی، نجکاری کے سیکرٹریز کو بھی عدالت میں طلب کرلیا، چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹریز کے کام نہ کرنے کی وجہ سے ہی ملک کا ستیاناس ہوا، سیکرٹریز کو ڈر ہے کہیں نیب انہیں نہ پکڑ لے، پہلے بھی تو سیکرٹریز کام کرتے تھے، اب پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے۔

چیف جسٹس نے سماعت کے دوران کہا کہ اسٹیل مل کے بقیہ 3700 ملازمین کو آج فارغ کرنے کا حکم دیں گے، اسٹیل مل کے 437 میں سے 390 افسران کو بھی آج فارغ کریں گے، سب کو فارغ کرنے اور آج اسٹیل مل کو تالا لگانے کا حکم دیں گے، عملی طور پر اسٹیل مل کا کوئی وجود نہیں ہے۔