ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا۔۔۔۔۔

خبر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ذہنی صحت اور روحانی بقا کا حقیقی ذریعہ ہے News is an actual means of mental health and spiritual survival اس مقولے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اخبار نویس بڑی اور نتیجہ خیزخبریں سنا کر ایک اہم قومی اور سماجی فریضہ سر انجام دیتے ہیں یکم اگست کو ایک نامور صحافی نے نون لیگ کے صدر شہباز شریف کا انٹرویو کر کے اہل وطن کے سامنے خبروں کے ڈھیر لگا دیئے اب اقتدارو اختیار کے ایوانوں سے لے کر کوچہ و بازار تک کسی کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ کون سی خبر زیادہ اہم ہے اور کون سی غیر اہم کس پہ بات کی جائے اور کسے رہنے دیا جائے ایک بڑی خبر کو صحافتی زبان میں سکوپ(scoope) کہا جاتا ہے اس انٹرویو کو دیکھنے اور اس پر ہونے والے تبصروں کو سن کر کہا جا سکتا ہے کہ اسمیں کئی سکوپ تھے اس انٹرویو کی ضرورت اسلئے بھی تھی کہ آزاد کشمیر اور سیالکوٹ میں نون لیگ کی شکست کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ مفاہمت اور مزاحمت کے بیانیوں کا تضاد اب اس جماعت کیلئے ایک ایسا بوجھ بنتا جا رہا ہے جسے یہ زیادہ دیر تک نہیں اٹھا سکے گی اب شہباز شریف اور مریم نواز کے تنازعے کا حل اسلئے بھی ضروری ہے کہ یہ جھگڑا دو سال بعد ہونیوالے انتخابات میں ایک بڑی شکست کا باعث بن سکتا ہے مسلم لیگ نون کے صدر کافی عرصہ سے خاموش بھی تھے اسلئے انکا میدان عمل میں اترنا ضروری تھانون لیگ کے حمایتیوں کے علاوہ مخالفین بھی گوش بر آواز تھے کہ وہ کیا کہتے ہیں اس صورت حال کو سلیم کوثر نے یوں بیان کیا ہے
کسی سنگ دل کو گداز دے‘ کسی آنکھ میں بھی نمی نہ ہو
کوئی بات ایسی کہو یہاں جو کبھی کسی نے کہی نہ ہو
اسی غزل کے ایک دوسرے شعر کو شہباز شریف کا جواب کہا جا سکتا ہے
یہاں جان کر نہیں مانتے‘ یہاں مان کر نہیں جانتے
میرے ساتھ جو بھی ہوا یہاں وہ سلوک تجھ سے کبھی نہ ہو
اس طویل مکالمے میں شہباز شریف یہی کہتے نظر آئے کہ انکی بات انکی اپنی جماعت کے اندر بھی نہیں سنی جا رہی اور باہر بھی انکی شنوائی نہیں ہو رہی اسکا ثبوت دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بڑے میاں صاحب اگر 2018 کے الیکشن کے موقع پر انکی بات مان لیتے تو وہ یعنی شہباز شریف و زیر اعظم بن سکتے تھے اس بات کو بڑھاتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں اس سے پہلے بھی وزارت عظمیٰ کی آفر ہوئی تھی مگرانہوں نے اسے بڑے بھائی کی ناراضگی کے ڈر سے مسترد کر دیا تھا سلیم کوثر کے حال ہی میں شائع ہونیوالے شعری مجموعے ”خواب آتے ہوے سنائی دیئے“ کا ایک شعر ہے
اک عمر ہو گئی ہے میرے حق میں فیصلہ
لکھا تو جا چکا ہے سنایا نہیں گیا 
میاں شہباز شریف عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں انکے بڑے بھائی سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ چھوٹے بھائی کی چالیس سالہ خدمات کو مد نظر رکھتے ہوے انہیں وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کا موقع دے دیں گے مگر یہ بات صرف شہباز شریف کے ذاتی المیے تک محدود نہیں اس خاندانی منظر نامے پر میاں نواز شریف کے ذاتی غم و غصے اور رنج و الم کی پرچھائیاں بھی لہرا رہی ہیں انہیں گذشتہ کئی سالوں سے با آواز بلند جس دشنام طرازی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ اسے غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ اگر چھوٹے بھائی کے مفاہمتی بیانیے کو قبول کر لیں تو یہ انکی سیاست کیلئے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے وہ اس انداز فکر کو اپنا کر عوام کے سامنے سرخرو ہونے کی جدو جہد سے
 دستبردار ہو جائیں گے یوں انکی سیا ست بھی انکے ذاتی المیے کے حصار میں جکڑی ہوئی ہے سلیم کوثر ہی کا شعر ہے
میں تھا تو مجھ سے ساری خرابی تھی دہر میں 
اب کس سے پوچھئے کہ میرے بعد کیا ہوا
میاں نواز شریف کی اس خلش کو صرف مزاحمت کا بیانیہ ہی دور کر سکتا ہے انکے پاس اپنی رنجشوں کے ازالے کیلئے آئین اور قانون کی بالا دستی کے بیانئے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں دوسری طرف شہباز شریف زندگی بھر دھیمے لہجے میں صلح جوئی اور مصالحت پسندی کی بات کرتے رہے ہیں تناؤ اور تصادم انکے مزاج کا حصہ ہی نہیں بڑے بھائی کی اطاعت گزاری بھی انہی نرم و نازک جذبوں سے جنم لیتی ہے اسوقت دونوں بھائی ڈوبتے سورج کے ڈھلتے سایوں میں ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ایکدوسرے کو چھوڑا بھی نہیں جا سکتا اور ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آگے بھی نہیں بڑھا جا سکتا اس پیچیدہ صورتحال کو افتخار عارف نے یوں بیان کیا ہے۔
لغزشوں سے ماورا تو بھی نہیں میں بھی نہیں 
دونوں انساں ہیں خدا تو بھی نہیں میں بھی نہیں 
جان عارف تو بھی ضدی تھاانا مجھ میں بھی تھی 
دونوں خود سر تھے جھکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں 
دیکھا جائے تو بڑے لیڈروں کے المیے انکی سیاست ہی سے جنم لیتے ہیں ذالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کی مثال ہمارے سامنے ہے شہباز شریف کا زیر نظر انٹرویو ظاہر کرتا ہے کہ دونوں بھائیوں کے متضاد انداز فکر اگلے چند سالوں تک کسی منطقی نتیجے پر پہنچتے ہوے نظر نہیں آرہے آثارو قرائن بتا رہے ہیں کہ میاں نواز شریف اپنی فہم و فراست کو درست ثابت کرنے کیلئے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں شہباز شریف نے تو نہایت جذباتی انداز میں سلیم صافی کو دئے گئے طویل انٹرویو میں اپنا دل کھول کر سامنے رکھ دیا ہے قتیل شفائی نے کہا ہے۔
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی۔ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا