امریکا نے افغان مرکزی بینک کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کردیئے 

واشنگٹن:طالبان کی جانب سے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد امریکہ نے افغان مرکزی بینک کے امریکہ میں 9.5 بلین ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیئے ہیں۔

ایک سینئر امریکی عہدیدار نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان کو رقم کی ترسیل روک دی ہے، افغان حکومت کے امریکہ میں موجود اثاثے اب طالبان کو دستیاب نہیں ہوں گے۔

 امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے طالبان کو اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے۔

دوسری جانب افغان مرکزی بینک کے سربراہ کا کہنا ہے کہ افغانستان کے کرنسی کے ذخائر زیادہ تر غیر ملکی کھاتوں میں موجود ہیں اور طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد ان ذخائر پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔

افغان مرکزی بینک کے ذخائر کی مالیت تقریباً 9 بلین ڈالر ہے جن میں سے تقریبا ً7 بلین ڈالر مالیت کی نقد رقم، سونے کے امریکی بانڈز اور دیگر کاغذوں کے مرکب امریکی فیڈرل ریزرو بینک میں رکھے گئے ہیں۔

 دریں اثناء افغانستان کے معاملے پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کا اجلاس 24 اگست کو جنیوامیں ہو گا، اجلاس میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد انسانی حقوق کے معاملے پربحث ہو گی، اجلاس پاکستان، اسلامی تعاون تنظیم اور افغانستان کی درخواست پر بلایاگیا ہے۔

 برطانیہ، جرمنی، اٹلی اور جاپان سمیت 89 ممالک درخواست کی حمایت کر چکے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان نے کہا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے فیصلے کی بنیاد 2020 میں طالبان کے ساتھ دوحا میں ہونے والا سمجھوتا ہے، افغان افواج ملکی دفاع کے فرائض انجام دے رہی تھیں، اور انہیں امریکا کی تربیت، اسلحہ اور فضائی مدد حاصل رہی۔

 امریکا کے پاس دو ہی آپشن تھے کہ یا تو انخلا کیا جائے یا پھر افغانستان میں مزید فوج تعینات کی جائے۔ صدر نے انخلا کا فیصلہ کیا جو عین قومی مفاد میں تھا۔

 ادھر امریکی فوج نے افغانستان سے اب تک 3200 سے زائد افراد کو نکال لیا ہے،امریکا 31 اگست کو انخلا کی آخری تاریخ سے پہلے اپنے تمام شہریوں کو افغانستان سے منتقل کرنا چاہتا ہے۔

 برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے 20 ہزار افغان شہریوں کو برطانیہ کی شہریت دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس دوران یونان حکومت نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان سے فرار ہو کر آنے والے مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے یا پھر ملکی سرزمین استعمال کرتے ہوئے دیگر یورپی ملکوں تک پہنچنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ 

ترجمان وائٹ ہاؤس نے کہا کہ طالبان نے امریکی شہریوں کو ایئرپورٹ آنے کی اجازت دی ہے، امید ہے وہ وعدے پر پورا اتریں گے۔ اب بھی 11 ہزار امریکی افغانستان میں موجود ہیں۔ ترجمان کے مطابق افغانستان چھوڑنے والے بعض شہریوں کو ہراساں کیا گیا ہے، یہ معاملہ طالبان کے ساتھ اٹھا دیا ہے۔

امریکی میجر جنرل ہینک ٹیلرنے کہا کہ طالبان نے کابل سے امریکی انخلا کی کوششوں میں مداخلت نہیں کی۔ کوئی حملہ یا دھمکی نہیں ملی، ہر گھنٹے پرواز اڑانے کی کوشش ہے۔ترجمان پینٹاگون جان کربی نے کہا کہ دوحہ میں طالبان رہنماوں اور سربراہ امریکی سنٹرل کمانڈ کے درمیان ملاقات ہوئی۔ طالبان کے ساتھ کوئی دشمنی والے انداز میں بات چیت نہیں ہوئی۔