امریکہ کی دونوں بڑی جماعتوں کے سیاستدان اسوقت اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ افغانستان میں شکست کا ذمہ دار کون ہے۔ کابل ائیر پورٹ سے تواتر کیساتھ دکھائے جانیوالے ہیجان خہز مناظر کے گر دو غبار میں لپٹے ہوئے امریکی یہ بھول گئے ہیں کہ جارج بش کو اس جنگ کی اجازت سب نے متفقہ طور پر دی تھی۔ اسوقت سی آئی اے اور پینٹاگون کی رپورٹوں میں بھی اس جنگ کی حمایت کی گئی تھی اور اس جنگ کے خاتمے پر ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن دونوں متفق تھے امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت جسے ABC ٹیلیویژن کے ایک سروے کے مطابق 63% بتایا گیا ہے اب بھی اسکے اختتام کے حق میں ہے اسکے باوجود کارپوریٹ میڈیا پر بلیم گیم زور و شور سے جاری ہے صدر بائیڈن اگر افغان فوج کے اچانک رفو چکر ہوجانے اور کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پیدا ہونے والے انتشار کو قابو میں نہیں لا سکے تو اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ اس عظیم شکست کا سارا ملبہ ان پر ڈال دیا جائے ریپبلکن پارٹی اس موقعے کے انتظار میں تھی چار سال تک ڈونلڈ ٹرمپ کی نا اہلی کی وجہ سے کٹہرے میں کھڑے رہنے کے بعد اس سے اتنی بڑی بد انتظامی پر خاموش رہنے کی توقع نہیں کی جا سکتی صدر بائیڈن کی مقبولیت کا گراف ٹائمز میگزین کے سروے کے مطابق 55 فیصد سے گر کر 47 فیصد پر آگیا ہے امریکہ کی داخلی سیاست کے تناطر میں کابل ائیر پورٹ پر نظر آنیوالی بد نظمی اور انتشار بائیڈن انتظامیہ کی اتنی بڑی ناکامی ہے جسکی قیمت اسے اگلے سال ہونیوالے وسط مدتی انتخابات میں ادا کرنا پڑیگی اور اسکے Ripple Effects یعنی دور تک پھیلے ہوئے اثرات 2024 کے صدارتی الیکشن پر بھی پڑ سکتے ہیں جسکا مطلب یہ ہے کہ بیس سالہ افغان جنگ کی ایک بڑی قیمت ڈیموکریٹک پارٹی کو ادا کرنا پڑیگی لیکن اس جنگ کی جو قیمت افغانستان کے عوام نے ادا کی ہے اسکی فریاد سی این این‘ فاکس‘ این بی سی اور دیگر نیوز نیٹ ورک پرکیوں سنائی نہیں دے رہی اسکا جواب یہ ہے کہ یہ نیوز چینلز اور قومی اخبارات آجکل بہ آوازبلند اپنے کل کلاں کے مفتوحہ ملک میں خواتین کے حقوق اور امریکی فوج کی مدد کرنیوالے افغانوں کووہاں سے نکالنے کا مطالبہ کر رہے ہیں انکے پاس اتنی فرصت ہے اور نہ انہیں ا س سے زیادہ کچھ کہنے کی اجازت ہے لااُبالی اور لا پرواہی کے عالم میں تیاگ کئے ہوے ملک میں انسانیت کس طرح سسک رہی ہے دیہاتی علاقوں میں رہنے والے افغان کس طرح زندگی گزار رہے ہیں اور انکی ویران زندگی میں گذشتہ بیس سالوں میں اسکے علاوہ اور کیا تبدیلی آئی ہے کہ انکے ہاتھوں میں موبائل فون پکڑا دیئے گئے ہیں۔خواتین کے حقوق کے بارے میں امریکہ کا کے کارپوریٹ میڈیا نے پچھلے بیس برس سے جو مہم چلائی ہوئی ہے اس سے اگر کچھ فرق پڑا ہے تو صرف اتنا کہ افغانستان کے بڑے شہروں میں چند ہزار تعلیم یافتہ خواتین کو ملازمتیں ملی ہیں چند لاکھ لڑکیوں کو سکول اور کالج جانے کی آزادی ہے دو عشرے میں ہونیوالی اس پیشرفت کو سراہا جا سکتا ہے مگر امریکی اداروں کے مہیا کئے اعداد و شمار کے مطابق 38.4 ملین آبادی کے ملک میں چوراسی فیصد خواتین نا خواندہ ہیں صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان کی تعمیر نو کیلئے نہیں گیا تھا صدر امریکہ کو بھول گیا ہے کہ جارج بش نے افغان جنگ کو Operation Enduring Freedom کا نام دیا تھا افغانوں کو آزادی دلانے کا مشن انکے ملک کی تعمیر نو کے بغیر کیسے ہو سکتا تھااس مقصد کیلئے جرمنی کے شہر بون میں 22 دسمبر 2001کو ایک کانفرنس بلائی گئی تھی جسمیں حامدکرزئی کو عبوری صدر چنا گیا طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد منعقد ہونیوالی اس کانفرنس کے اغراض و مقاصد میں نئے آئین کی تشکیل‘ آزاد عدلیہ اور میڈیا کی صورت گری اور خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے اقدامات شامل تھے اس حکمت عملی کا اصل مقصد ایک ایسے ریاستی ڈھانچے کی تعمیر تھی جو جنوبی اور وسطی ایشیا میں مغربی ممالک کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے صدر بائیڈن کو آجکل غیر منظم انخلا کی پاداش میں کوسنے سنانے والا کارپوریٹ میڈیا انہیں افغانستان پر قبضے کے اصل اغراض و مقاصد سے کیو ں آگاہ نہیں کرتا وہ یہ کیوں نہیں کہتا کہ جناب صدر ہم وہاں تعمیر نو کیلے ہی تو گئے تھے اسوقت اگر یہ ڈھونگ نہ رچایا جاتا تو ایک مفلوک الحال ملک پر قبضے کیلئے صرف القاعدہ کو مسمار کرنیوالی دلیل کافی نہ تھی۔جناب صدر! بیس برس تک آپکے قبضے کے دوران اس ملک میں ہر روز قتل و غارت ہوتا رہا کیا آپ نے کبھی یہ اعداد و شمار جمع کرنے کی کوشش کی کہ اس لاحاصل جنگ میں مرنے والے افغانوں کی صحیح تعداد کتنی ہے زخمی ہو کر زندگی بھر کراہنے والے کتنے ہیں آپ بڑے فخر سے تعلیمی سطح‘ بچوں کی شرح اموات‘ زندگی کا دورانیہ(Life Expectancy)‘ زچگی میں ہونے والی اموات(Maternal Mortality) اور اپنی پسند سے شادی کرنے کے حق کو کسی ملک کی ترقی کے پیمانے سمجھتے ہیں آج ان تمام Indexes یا اشاریوں میں افغانستان کہاں کھڑا ہے کیا اقوام متحدہ میں کوئی ایسا کٹہرا ہے جہاں آپکو کھڑا کر کے پوچھا جائے کہ بیس سال تک آپ اپنے مفتوحہ ملک میں کیا کرتے رہے کیا یہ آپکے کارپوریٹ میڈیا کا کمال نہیں کہ دنیا بھر کی توجہ ایک قابض ملک کے اصلی جرائم سے ہٹا کراسے حامد کرزئی انٹرنیشنل ائیر پورٹ کی چار دیواری تک محدود کر دیا گیا ہے امریکہ میں تو ایسے صحا فیوں کی کمی نہیں جو Hold On Mr. President کہہ کر صدر امریکہ سے اپنا من چاہا سوال پوچھ لیتے ہیں امریکہ کے آزاد صحافی اپنے صدرسے یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ بیس سال کی جنگ و جدل اور خون ریزی کے بعد اس مفتوحہ ملک کی تعمیر نو کون کریگا آپ نے تو امریکی بینکوں میں موجود افغانستان کے ساڑھے نو ارب ڈالر ز کے فنڈزبھی منجمد کر دئے ہیں اور یورپی یونین نے بھی اس ملک کی تباہی میں دل کھول کر اپنا حصہ ڈالنے کے بعد اسکی مالی امداد بند کرنیکا اعلان کر دیا ہے اس انیائے میں ان ستاون ممالک کو بھی شامل کر لیجئے جو طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے آپکی نظر کرم کی طرف دیکھ رہے ہیں طالبان جنگ جیت چکے مگر انہیں اب بھی اپنی مرضی کی حکومت بنانے کا اختیار نہیں آپنے انہیں ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کرنے کا حکم تو دے دیا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ اس بیکراں وسعت کی سرحدیں کہاں ختم ہوتی ہیں مسٹر پریذیڈنٹ! یہ کتنے کمال کی بات ہے کہ آپ جنگ ہار کر بھی فاتح کو اپنے احکامات کا پابند کر رہے ہیں اور فاتح بڑے صبرو استقامت سے آپکے نئے حکم نامے کی شرائط پر غوروخوض کر رہا ہے آپکے اس تاریخی کارنامے پر اسکے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
ہمیں تو خاک اڑانا تھی بس اڑا آئے
ہمارا دشت میں کوئی پڑاؤ تھا ہی نہیں