آئی ایم ایف قرض کے لئے منی بجٹ ناگزیر

ملک میں گزشتہ برس کی طرح اس مرتبہ بھی منی بجٹ لانے کی تیاریاں تقریباً مکمل ہوچکی ہیں۔

پاکستان جس طرح کی معاشی دلدل کی جانب سے بڑھ رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کی اگلی قسط وصولی اور پروگرام بحالی ضروری ہے جس کے بعد دیگر دوست ممالک سے بھی مدد حاصل ہوسکے گی تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے جو شرائط رکھی گئیں ہیں اس کے لئے حکومت کو کئی بڑے اقدامات پر مشتمل“منی بجٹ“ لانا ہوگا جس کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور کئی کاروباری شعبے مزید دباوٗ کا شکار ہوجائیں گے۔

حکومت کی جانب سے متوقع منی بجٹ کے حوالے سے موصولہ معلومات کے مطابق آئی ایم ایف کو مطمئین کرنے،ٹیکس اہداف کو پورا کرنے اور بجٹ خسارہ کم کرنے کے لئے حکومت کو بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے پڑیں گے اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس جو اس وقت نہیں ہے مرحلہ وار 17فیصد تک پہنچائی جائے گی۔

اطلاعات کے مطابق حکومت کی جانب سے درآمدات پر دفلڈٹیکس بھی لگائی جارہی ہے پہلے یہ تجویز زیر غور تھی کہ بنیادی ضرورت کی اشیاء پر یہ ٹیکس نہ لگائی جائے لیکن اب ایسی خبریں آرہی ہیں کہ تمام درآمدات پر ایک سے دو فیصدفلڈ ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔

آئی ایم ایف کی سب سے بڑی شرط کرنسی کو مارکیٹ میکنزم کے مطابق رکھنا ہے تاہم گزشتہ چند ہفتوں سے کرنسی مارکیٹ کو کنٹرول کیا جارہا ہے آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق کرنسی کو کھلا چھوڑا گیا تو ڈالر 250روپے سے اوپر پہنچ سکتا ہے اسکے علاوہ بینکوں کو ڈالر کی قدر بڑھنے کے نتیجے میں حاصل منافع پر بھی ٹیکس لگایا جارہا ہے۔

عارف حبیب سیکورٹیز کی رپورٹ کے مطابق ان متوقع اقدامات کے نتیجے میں مختلف شعبوں پر اثرات مرتب ہوں گے جس میں بجلی کی قیمت بڑھنے کا اثر سیمنٹ،اسٹیل اور ٹیکسٹائل کے شعبوں پر منفی جب کہ پاور سیکٹر پر مثبت ہوگا۔

اسی طرح گیس کی قیمت بڑھنے کا اثر بھی سیمنٹ، فرٹیلائرز، کیمکل اور اسٹیل پر منفی جب کہ پاور سیکٹر پر مثبت ہوگا۔

پاکستانی روپے کی قدر میں ممکنہ گراوٹ کا اثر سیمنٹ،گیس یوٹلیٹیز،آٹو سیکٹراور اسٹیل پر منفی جب کہ پاور،ٹیکسٹائل اور کیمیکلز پر مثبت ہوگا۔ٹیکسز میں اضافے کا نقصان بینکوں کو ہوگا دیگر شعبوں پر اس کا زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی، گیس کے نرخ، بڑھنے، ڈالر کی قدر میں اضافے اور درآمدی اشیاء پر ٹیکسز کے سبب مہنگائی بڑھے گی جس کی وجہ سے کم آمدن طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔