پاکستان سٹیل ملزاس وقت خسارے میں جانے کی وجہ سے ملکی خزانے پر بوجھ ہے جبکہ ایک وقت تھا کہ اس ادارے نے ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کیا ہے‘ یہ پاکستان سٹیل مل ہی ہے جس نے ملک میںفولاد سازی اور ساتھ ہی ٹینکوں جیسے بھاری ہتھیار بنانے کی راہ ہموار کی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان سٹیل ملز کے مجموعی قرضے اور نقصانات جولائی 2023 میں 526 ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں ‘ حالات پر نظر رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ اب بھی پاکستان سٹیل ملز کو حکومتی ملکیت میں چلانا ممکن ہے۔یعنی سٹیل ملز کی نجکاری کیے بغیر بھی اس کو بحال کیا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے حکومت کو اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تنظیم نو کرنا ہوگی۔ پیشہ ورانہ انتظامیہ، تربیت یافتہ افرادی قوت کے ساتھ ساتھ بزنس کمیونیٹی کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ سٹیل ٹاﺅن شپ کی مالیت سٹیل ملز سے زائد ہوگئی ہے۔ سٹیل ملز سے ملحق پورٹ قاسم پر زمین کی قیمت 10 کروڑ روپے فی ایکٹر سے بڑھ چکی ہے۔ اس کی فروخت سے بھی سٹیل ملز کی بحالی کی جاسکتی ہے۔ پاکستان سٹیل ملز سے قبل ملک میں کوئی بھی اس قدر بڑا صنعتی کمپلیکس موجود نہ تھا اور نہ اب ہے۔ پاکستان سٹیل اگر مختلف کارخانوں پر مشتمل ہے تو اس کے ہر کارخانے کو چلانے کےلئے انتظامیہ اور کاروباری منصوبہ بھی الگ ہونا چاہئے۔ پاکستان
سٹیل میں فولاد سازی بند ہوئی تو آکسیجن پلانٹ کو کیوں بند کیا گیا۔ پاکستان سٹیل ملز میں لگی کوک اوون بیٹری دنیا میں کوک بنانے کے چند کارخانوں میں سے ایک ہے۔ اگر اسی کو چلانے کی کوشش کی جاتی تو کوئلے کو درآمد کرکے اس سے کوک بنا کر دوبارہ ایکسپورٹ کیا جاسکتا تھا۔ جبکہ اس عمل میں پیدا ہونے والی قیمتی گیسوں کا فائدہ الگ ہوتا۔اگر اسٹیل ملز کا سٹیل میکنگ ڈپارٹمنٹ بند تھا تو اس کے ہاٹ اور کولڈ رولز تو کام کرسکتے تھے۔ بیرون ملک سے سلیب اور بلٹ منگوا کر ان کو ہاٹ یا کولڈ رول میں تبدیل کیا جاسکتا تھا۔ مگر انتظامیہ ایسا کرنے میں ناکام رہی ۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اسٹیل ملز کو دو کمپنیوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ پہلی کمپنی پاکستان سٹیل ملز کارپوریشن ہے جس کے پاس سٹیل ملز کے نقصانات اور واجبات کی ادائیگی ہے جبکہ پلانٹ کو الگ کردیا گیا ہے۔ پلانٹ کی سٹیل کارپوریشن آف پاکستان لمیٹڈ کو فروخت سے ملنے والی رقم سے پہلے سٹیل ملز پر چڑھا ہوا قرض اتارا جائے گا‘ پاکستان سٹیل ملز کارپوریشن نے چین کی کمپنی ڈونگ ہوا سے ایک مفاہمت کی ہے مگر اس مفاہمت پر متعدد اختلافات سامنے آئے ہیں‘پاکستان سٹیل ملز کے حوالے سے پاک چائنا انویسٹمنٹ نے مئی 2023 میں ایک دستاویز جاری کی ہے جس میں پاکستان سٹیل ملز کی فروخت سے متعلق متعدد اختلافات سامنے آئے ہیں۔ اس کے مطابق 22 لاکھ ٹن کی سٹیل ملز کیلئے 300 ایکڑ زمین بہت ہے۔ سرمایہ کار 1229 ایکڑ زمین کی قیمت کیوں ادا کرے اور آئندہ 30 سال کی لیز کےلئے 57ارب روپے کی رقم ادا کرنا ممکن نہیں ہے۔ کمپنی زمین کی 30سال کی لیز کے بجائے پلانٹ کی لائف مکمل ہونے تک زمین کی ملکیت دینے کا معاہدہ چاہتی ہے‘ اس کے علاوہ پورٹ قاسم جیٹی کے استعمال پر پاکستان سٹیل ملز کو جو بھی مراعات دی گئی تھیں وہ ان کا تسلسل چاہتی ہے مگر پورٹ قاسم اتھارٹی اس حوالے سے تجارتی بنیادوں پر جیٹی کے چارجز لینے کی خواہش مند ہے۔فولاد سازی کے کسی بھی کارخانے کےلئے پانی وہی حیثیت رکھتا ہے جوکہ جسم میں دوڑتا خون، اس پر سرمایہ کار اور سٹیل ملز کے درمیان تنازع موجود ہے‘ سٹیل ملز کو پانی کی فراہمی بھی تجارتی بنیادوں پر کرنے اور سٹیل ملز کےلئے واٹر میٹر لگانے کا کہا گیا ہے‘ مگر سرمایہ کاری
کرنے والی کمپنی پانی کی فراہمی میں تسلسل چاہتی ہے اور وہ ایسا معاہدہ چاہتی ہے کہ اگر متعلقہ ادارہ پانی کی فراہمی میں ناکام ہوا تو اس پر جرمانہ کیا جائے اس کے علاوہ وہ فراہمی آب کے نظام کا کنٹرول بھی چاہتی ہے جبکہ سٹیل ملز سرمایہ کاری کرنے والی کمپنی سے 3سال کے پانی کی فراہمی کا بل اکٹھا وصول کرنا چاہتی ہے‘پاکستان سٹیل ملز کے پیداواری عمل بند ہونے کے بعد ملک میں چھوٹے چھوٹے سٹیل پروڈکشن یونٹس بن گئے ہیں جو کہ معدنی لوہے کے بجائے دنیا بھر سے سکریپ خرید کر اس کو پگھلاتے ہیں اور اس سے فولادی مصنوعات جیسا کہ سریا وغیرہ بناتے ہیں‘ یہ گروہ بھی پاکستان سٹیل ملز کی بحالی نہیں چاہتا ہے اور وہ بھی اس حوالے سے متعدد رکاوٹیں کھڑی کرتے رہتے ہیں ‘ پاکستان سٹیل ملز کو جب لگایا گیا تھا تو اس کو متعدد مراعات دی گئی تھیں‘ پاکستان سٹیل ملز کو اگر نجی شعبے کے حوالے کرنا ہے تو اس کو انہی مراعات کےساتھ حوالے کیا جائے جو کہ ادارے کو قیام کے وقت حاصل تھیں‘یہ تجویز ہے کہ اس کا فائدہ عوام کو پہنچانے کےلئے سٹیل ملز بلکہ حکومت کے تمام اداروں کا لازمی طور پر پاکستان سٹاک ایکس چینج میں اندراج کروایا جائے تاکہ ان اداروں کے حسابات عوامی سطح پر دستیاب رہیں اور منافع بخش اداروں میں سرمایہ کاری سے عوام کو بھی فائدہ ہو اور ملکی معیشت پر بوجھ بننے کی بجائے یہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوں۔