(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
اس وقت ملکی معیشت مشکلات میں ہے اور اس سلسلے میں کئی طرح کی پالسیساں مد نظر ہیں تاہم اس حوالے سے اگر کوئی پہلو نظر انداز ہے تو وہ گھریلویا دیہی صنعتیں ہیں۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ہم اپنے دیہات میں ایسی صنعتوں کو رواج دیں کہ وہ ہماری معیشت میں اضافے کا سبب بھی بنیں اور دیہات سے آبادی شہروں کی طرف بھی منتقل نہ ہو‘ ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہمارے دیہات میں کھلے علاقے ہیں اور مویشی پالنا ان لوگوں کی ضرورت ہے‘ ہر گھر میں کم از کم ایک جانور تو لازمی ہوتا ہے ‘وہ گائے ہو ‘ بھینس ہو یا بکری ہو‘ اسی طرح ہر گھر میں مرغی تو ضرور ہی ہوتی ہے جس سے لوگ اپنی خوراک کی بھی ضروریات پوری کرتے ہیں اور کبھی کبھی انڈے بیچ کر اور ضروریات بھی پوری کرتے ہیں۔گائے اور بھینسیں ہمارے دودھ کی ضرورت بھی پوری کرتی ہیں اور گھی بھی حاصل کیا جاتا ہے‘ گھی اپنی ضرورت کے علاوہ بیچ بھی دیا جاتا ہے جس سے کافی رقم وصول ہو جاتی ہے‘ اگر اسی چیز کو ایک منصوبہ بندی کےساتھ گھریلو کےساتھ ساتھ ایک صنعت کا درجہ بھی مل جائے تو یہی دیہات ہماری معیشت میں ایک بڑی پیشرفت کا سبب بن سکتے ہیں اگر صحیح معنوں میں زرعی صنعتوں یا دیہی صنعتوں کو رواج دیا جائے ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ ہمارے ملک میں ترقی کی رفتار بہت تیز ہو سکتی ہے ہم نے خواہ مخواہ دیہاتیوں سے ان کی زندگی چھین لی ہے‘جس سے ہمارے دیہات اجڑ گئے ہیں ‘آج ہم جو ملاوٹ شدہ چیزوںمیں گھر گئے ہیں اسکی وجہ بھی دیہاتی زندگی کی طرف توجہ نہ دینا ہے اگر منصوبہ بندی کے ذریعے ہم دیہاتی زندگی کو آگے بڑھانے کی طرف توجہ دیتے توہم ان ملاوٹ شدہ چیزوں سے بھی چھوٹ جاتے‘ہم نے ماہرین معاشیات کی منصوبہ بندیوں کی وجہ سے اپنی آبادی کے اسی فی صد لوگوں کو بے کار بنا دیا ہے۔ اور اپنی اس آبادی کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے‘اگر وقت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اپنے دیہات کو اس طرف مائل کرلیںاور حکومت لوگوں کو سہولیات مہیا کرے تو ہم بڑے کم عرصے میں بیرونی دنیا کے قرض سے جان چھڑا سکتے ہیں ۔ حکومت کو چاہئے کہ دیہاتیوں کو سہولیات مہیا کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ترقی کی منازل طے نہ کر سکیں۔دیہی ترقی سے ہی پائیدار ترقی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے اور شہروں پر آبادی کا بوجھ بھی اس سے کم ہو گا۔