(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
سیٹلائٹ انٹرنیٹ سے متعلق ادارے رفتار بڑھانے پر مسلسل کام کررہے ہیں اور توقع ہے کہ آئندہ چند برسوں میں یہ رفتار آج کی نسبت کہیں زیادہ ہوجائے گی،انٹرنیٹ تو انٹرنیٹ ہوتا ہے،آج انٹرنیٹ کی جتنی ترقی ہم اپنے اطراف میں دیکھ رہے ہیں ‘جس کا ایک بڑا حصہ ہماری ضرورت بھی بن چکا ہے وہ برسوں پہلے امیروں کی عیاشی سے شروع ہوا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے آج عالمی صنعت بن چکا ہے‘تین دہائیوں کے اس سفر میں انٹرنیٹ کئی تبدیلیوں سے روشناس اور ہمکنار ہوا ہے جن میں نت نئے پروٹوکولز سے لے کر طرح طرح کی ایسی جدید ٹیکنالوجیز شامل ہیں کہ جن کا سرسری تذکرہ بھی ایک بھرپور انسائیکلوپیڈیا کا متقاضی ہے‘ انہی تبدیلیوں اور جدت طرازیوں کے طفیل نہ صرف انٹرنیٹ کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے بلکہ آج انٹرنیٹ کی بدولت ایسا بہت کچھ ممکن ہوچکا ہے جس کا تصور بھی آج سے تیس چالیس سال پہلے کسی کے ذہن میں نہیں تھا‘زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں ایک انقلاب برپا کرنے والا یہ انٹرنیٹ آج ایک سنجیدہ عالمی کاروبار بن چکا ہے جبکہ انٹرنیٹ تک رسائی کو بنیادی انسانی حقوق میں بھی شامل کیا جاچکا ہے۔ سیٹلائٹ انٹرنیٹ بھی اسی انقلاب کا ایک حصہ ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی جگہ بناتا جارہا ہے‘آپ نے ڈش اینٹینا تو دیکھا ہوگا اور شاید استعمال بھی کیا ہو‘ شروع میں اینٹینا بہت بڑے اور بھاری بھرکم ہوا کرتے تھے؛ پھر ڈیجیٹل ڈش اینٹینا بھی آنے لگے؛ان کی ڈش بہت چھوٹی اور کم وزن ہوتی ہے ‘ایک ڈیجیٹل ڈش بیک وقت سینکڑوں چینلز وصول کرسکتی ہے‘ سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی بنیادی ٹیکنالوجی وہی ہے جو ڈیجیٹل ڈش اینٹینا میں استعمال ہوتی ہے‘البتہ دونوں میں کچھ فرق بھی ہے‘سب سے پہلا اور اہم ترین فرق یہ ہے کہ ڈیجیٹل ڈش سے صرف سیٹلائٹ کے سگنل وصول کئے جاسکتے ہیں جبکہ سیٹلائٹ انٹرنیٹ والی ڈش نہ صرف سیٹلائٹ سگنل وصول کرسکتی ہے بلکہ سیٹلائٹ کو سگنل بھیج بھی سکتی ہے‘قدرے تکنیکی زبان میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ روایتی ڈیجیٹل ڈش صرف ڈان لنک کا کام کرتی ہے جبکہ سیٹلائٹ انٹرنیٹ والی ڈش بیک وقت ڈان لنک اور اپ لنک دونوں فراہم کرتی ہے‘سیٹلائٹ انٹرنیٹ ڈش کے ساتھ بھی ایسا ہی ایک ڈبہ ہوتا ہے جسے سیٹلائٹ موڈیم کہتے ہیں‘ اس کے ذمے دوہرا کام ہوتا ہے، یہ سیٹلائٹ سے موصول ہونے والے ڈیجیٹل سگنلز کو کمپیوٹر کےلئے قابلِ فہم بناتا ہے اور کمپیوٹر سے انٹرنیٹ پر بھیجے گئے پیغامات کو سیٹلائٹ کےلئے قابلِ فہم بنا کر ڈش کے ذریعے خلاءمیں بھیجتا ہے‘ اس کے برعکس سیٹلائٹ انٹرنیٹ کےلئے صرف اتنے تار چاہئے ہوتے ہیں جوگھر کی چھت پر یا کھڑکی پرنصب ڈیجیٹل ڈش آوٹ ڈور یونٹ کو گھر میں رکھے ہوئے سیٹلائٹ موڈیم اِن ڈور یونٹ سے جوڑ سکیں اور ان دونوں کو حسبِ ضرورت بجلی فراہم کرسکیں‘سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی خوبیاں اپنی جگہ لیکن بہرحال یہ ابھی اتنا تیز رفتار نہیں ہوا ہے کہ آپٹیکل فائبر اور کیبل وغیرہ کے ذریعے فراہم کئے جانے والے عام براڈ بینڈ انٹرنیٹ کا مقابلہ کرسکے۔پاکستان میں روایتی براڈ بینڈ انٹرنیٹ کنکشن کی تنصیب پر ابتدائی اخراجات کا تخمینہ 3 سے 4 ہزار روپے کے درمیان ہے جبکہ ماہانہ اخراجات بھی ایک ہزار سے 5 ہزار روپے تک ہوسکتے ہیں‘ تجارتی/ کاروباری (کمرشل) مقاصد کیلئے ابتدائی خرچ لاکھوں میں پہنچ سکتا ہے جس کا انحصار اس ادارے میں انٹرنیٹ کی ضرورت پر ہے‘جبکہ ماہانہ اخراجات بھی اسی تناسب سے ایک لاکھ یا 2 لاکھ روپے ہوسکتے ہیں‘ایک عام صارف کے لئے سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس حاصل کرنے کا کم سے کم ابتدائی خرچ 45 ڈالر سے300 ڈالر(تقریباً11 ہزار سے 72 ہزار پاکستانی روپے) تک ہوسکتا ہے جبکہ ماہانہ اخراجات کا تخمینہ 65 سے 400 ڈالر تقریباً (16ہزار سے 96 ہزار پاکستانی روپے) کے درمیان ہے‘ظاہر ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی اتنی زیادہ لاگت برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا شوقین مزاج مالداروں کو ہم مستثنیات میں شامل کررہے ہیںہاں، اتنا ضرور ہے کہ اگر آنے والے چند برسوں میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی لاگت کم ہوتے ہوتے موجودہ مالیت کا صرف دس فیصد رہ جائے تو شاید اسے ہمارے ہاں بھی مقبولیت حاصل ہو جائے۔پھر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ سیٹلائٹ انٹرنیٹ کا مقصد شہری اور آباد علاقوں تک انٹرنیٹ کی فراہمی ہرگز نہیں، بلکہ اسے ان علاقوں کے لئے وضع کیا گیا ہے جہاں تکنیکی، مالیاتی یا سیاسی وجوہ کی بنا پر روایتی (تار والے)یا موبائل انٹرنیٹ تک رسائی ممکن نہ ہو۔ اس پورے موازنے میں شاید یہی وہ واحد نکتہ ہے جہاں سیٹلائٹ انٹرنیٹ کو روایتی انٹرنیٹ پر برتری حاصل ہوجاتی ہے۔یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ انٹرنیٹ آج ہر خاص و عام کی ضرورت بن چکا ہے لیکن سیٹلائٹ انٹرنیٹ، سرِدست، ہمارے لئے صرف ایک عیاشی ہے۔ یاد رکھیے کہ 1994 میں ایک پاکستانی کےلئے ای میل بھیجنا بھی کسی مہنگی دردِ سری سے کم نہ تھا اور آج پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 8 کروڑ 30 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے جن کی اکثریت متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے آنے والے وقت میں کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن شاید روایتی انٹرنیٹ کا خاتمہ نہ ہو، کیونکہ اس میں بہت سی ایسی خوبیاں ہیں جن کا تذکرہ کیا جاچکا ہے‘جو اسے ایک بہتر اور کم خرچ انتخاب بناتی ہیں۔یہ تو ہوسکتا ہے کہ روایتی اور سیٹلائٹ انٹرنیٹ ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو جیو اور جینے دو کے اصول پر عمل کرتے ہوئے، اپنی اپنی راہ چلتے رہیں لیکن شاید ان میں سے کوئی بھی دوسرے کو مکمل طور پر ختم کرنے کی شعوری کوشش نہ کرے۔