ماہ اگست : چند اہم واقعات

August in history
ماہ اگست‘ اہم واقعات

ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی

تاریخ کا طالب علم ہونے کے ناطے جب بھی مجھے اپنی روزمرہ کی سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں کچھ فارغ وقت ملتا ہے تو میں مختلف اہم واقعات کا مطالعہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ایسے واقعات کہ جنہوں نے انسانی تاریخ کا رخ بدلنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پچھلی صدی کے اہم واقعات میں سے ایک دوسری جنگ عظیم ہے۔ جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں اُور تباہی و دیگر ہولناک نقصانات ہوا اُور یہ نقصانات اِس قدر زیادہ ہیں کہ اِن کا ابھی تک ’درست اندازہ‘ بھی نہیں لگایا جا سکا ہے تاہم چھ اور نو اگست 1945ءکو جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی بم گرائے جانے کے نتیجے میں جاپانی قیادت کے حوصلے پست ہوئے اور پھر پندرہ اگست کو جاپانی شہنشاہ نے باضابطہ طور پر ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیا جیسے ہی جاپان نے شکست قبول کی‘ عالمی تاریخ میں بڑی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئیں۔ دنیا کے نقشے پر کئی نئے ممالک اُبھرنے لگے اُور برطانیہ کے زیرتسلط برصغیر سمیت مختلف نوآبادیاتی ممالک میں آزادی کی تحریکوں نے زور پکڑا۔ برطانوی سلطنت کے آخری وائسرائے لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کہ جنہوں نے جنگ عظیم میں بحریہ کے افسر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں کو ہندوستان تقسیم کرنے کے یک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ مقرر کیا گیا تھا تاہم بعض مورخین کے مطابق وہ پندرہ اگست کو بھارت کو تقسیم کرنے کا اعلان کر کے دوسری جنگ عظیم کی فتح کو مزید یادگار بنانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ وائسرائے کے اس فیصلے کا خمیازہ تقسیم ہند کے موقع پر سرحد کے دونوں طرف لاکھوں بے گناہ لوگوں کو بھگتنا پڑا۔ بعض اوقات یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جب دونوں ممالک نے ایک ہی وقت میں اُور ایک ہی ساتھ آزادی حاصل کی تو ایسا کیوں ہے کہ پاکستان چودہ اگست لیکن بھارت پندرہ اگست کو اپنا اپنا یوم آزادی مناتے ہیں؟ اس حوالے سے ’بی بی سی اردو‘ نے تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ آزادی کے پہلے سال میں پاکستان کے یوم آزادی کے حوالے سے الجھن نہیں تھی۔ راقم الحروف کو اچھی طرح یاد ہے کہ اٹھارہ اگست 2008ءکو سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے استعفے کا اعلان کیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرف پاکستان کے طاقتور ترین حکمرانوں میں سے ایک تھے لیکن پیپلز پارٹی نے جس سیاسی عزم‘ دانشمندی اور جرات کا مظاہرہ کیا وہ درحقیقت ملک میں جمہوریت کو مضبوط بنانے اور عوام کو طاقت کے ذریعہ کے طور پر بااختیار بنانے کی انتھک جدوجہد کا سنہرا باب ہے۔

 
دو سال قبل اگست ہی کے مہینے میں ہمارے خطے میں بڑی تبدیلی طالبان کی کابل واپسی کی صورت میں ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور مغربی اتحادیوں نے بیس سال میں افغانستان کی تعمیروترقی پر اربوں ڈالر خرچ کئے جو اِس امید کے ساتھ خرچ کئے گئے کہ تربیت یافتہ افغان سکیورٹی ایجنسیاں طالبان کی پیش قدمی کا مقابلہ کریں گی تاہم اگست دوہزاراکیس کے آغاز تک طالبان نے دیہی اضلاع پر قبضہ کر لیا تھا اور بالآخر پندرہ اگست کو وہ بغیر کسی مزاحمت کے دارالحکومت کابل پہنچ گئے۔ اِس سال افغانستان میں طالبان حکومت نے اقتدار میں واپسی کی دوسری سالگرہ کے موقع پر پندرہ اگست کے روز عام تعطیل کا اعلان کیا گیا۔ دو سال مکمل ہونے پر امارت اسلامیہ افغانستان کے سفید جھنڈے پورے ملک میں لہرائے گئے۔ میرے خیال میں نوے کی دہائی میں جب طالبان افغانستان میں برسراقتدار آئے تو پاکستان کی مغربی سرحد محفوظ ہو گئی۔ بدقسمتی سے‘ آج کی صورتحال ماضی سے کافی مختلف اور پیچیدہ ہے۔


ہماری قومی تاریخ میں سترہ اگست کا مہینہ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اِسی ماہ 1988ءمیں صدر جنرل ضیاءالحق اور پاکستان میں اس وقت کے امریکی سفیر کی پراسرار فضائی حادثے میں موت ہوئی جو آج تک معمہ ہے۔ ان کے دور میں ہمارے معاشرے میں ریاستی سطح پر جو سماجی تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کے اثرات آج بھی محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے محترمہ بے نظیر بھٹو کا جرات مندانہ کردار پاکستان کی قومی و سیاسی تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھنے کے لائق ہے۔

مضمون نگار پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ اُور سابق رکن قومی اسمبلی ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام
....