عام انتخابات کب ہوں گے؟

شبیر حسین اِمام‏

عوام عام انتخابات کے حوالے سے ملی جلی رائے کا اظہار کر رہے ہیں جو ایک سوال بار بار پوچھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا عام انتخابات مقررہ آئینی مدت یعنی تین ماہ میں ہوں گے یا اِنہیں پس پشت ڈال دیا گیا ہے؟

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اتحاد کی سبکدوش ہونے والی کابینہ کی جانب سے مردم شماری 2023 کے نتائج کی منظوری کے فیصلے نے انتخاب کے انعقاد کو مؤخر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اُور اس سے انتخابی نگران ادارے (الیکشن کمیشن آف پاکستان) کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ 90 دنوں کے اندر انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں جب تک کہ حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق انتخابی بندیوں کی از سر نو تشکیل نہیں ہو جاتی اُور اس عمل میں وقت لگے گا۔‏

‏ابتدائی اندازے کے مطابق یہ سارا عمل دسمبر کے وسط تک مکمل ہو جائے گا، جس سے ان خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے کہ کم از کم اگلے سال فروری سے پہلے انتخابات ہونے والے نہیں ہیں لیکن فروری دوہزارچوبیس میں عام انتخابات ہوں گے یہ بات بھی وثوق سے نہیں کہی جا سکتی اُور یہی وجہ ہے کہ اُن عوامی حلقوں کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے جو جلد انتخابات دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ آئین کے احکامات کو سیاسی اور انتظامی انجینئرنگ کے طور پر استعمال کرنے والے حلقے انتخابات کی تاخیر پر مطمئن اُور خاموش ہیں۔ 

عوامی رائے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ آئندہ انتخابات تحریک انصاف اُور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوگا اُور آئندہ عام انتخابات میں صرف 2 سیاسی قوتیں ہی ایک دوسرے پر اپنی برتری ثابت کریں گی ایک وہ جو تحریک انصاف میں ہیں یا تحریک انصاف کی حمایت کریں گی اُور دوسرا وہ جو تحریک انصاف کی مخالفت میں متحد ہیں۔

عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے لئے تحریک انصاف اُور دیگر ہم خیال جماعتوں اُور سیاسی نظریات رکھنے والے کارکنوں نے قانونی چارہ جوئی کے لئے عدالت عدلیہ (سپریم کورٹ آف پاکستان) سے رجوع کر لیا ہے مطالبہ کر رہے ہیں کہ انتخابات آئین میں طے شدہ ٹائم فریم کے اندر ہوں لیکن اِس پوری صورتحال کے کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جن کا گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے جیسا کہ  ایک طرف آئین کا آرٹیکل 224 الیکشن کمیشن کو اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 دن کے اندر عام انتخابات کرانے کا پابند بناتا ہے لیکن دوسری جانب الیکشن ایکٹ کی دفعہ 17 (2) کہتا ہے کہ ہر مردم شماری کے باضابطہ طور پر منظور ہونے کے بعد انتخابی ادارہ حلقہ بندیوں کا ازسر نو تعین کرے گا۔ ذہن نشین رہے کہ سابق وزیر اعظم کی سربراہی میں مشترکہ مفادات کونسل نے مردم شماری کی منظوری دی تھی جس کی وجہ سے بروقت انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہو گئیں ہیں۔‏

‏الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مردم شماری کے نتائج کے باضابطہ نوٹیفکیشن کے بعد کمیشن فوری طور پر نئی حد بندی کرنے کا قانونی طور پر پابند نہیں یہی وہ نکتہ نظر ہے جس کی وجہ سے انتخابات کے غیرمعینہ مدت تک کے لئے ملتوی ہونے کی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں اُور ایک خاص سیاسی جماعت اُور اُس کے ہم خیالوں کو عدالت سے رجوع کرنا پڑا ہے۔ حکومت اُور حکومتی ادارے اس سلسلے میں خاموش ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ صورتحال واضح نہیں ہے اُور ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں عام انتخابات پہلے سے زیادہ غیریقینی کا شکار ہو رہے ہیں۔‏