انتہا پسندی کا پھیلتا سرطان

‏سوچنے کی گھڑی ہے کہ پرتشدد واقعات سے پاکستان کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ حال ہی میں فیصل آباد کے علاقے جڑانوالہ میں مسیحیوں کو نشانہ بنانے والے ہجوم نے ایک مرتبہ پھر اس ضرورت کو اجاگر کیا ہے کہ اپنے گریبان میں جھانکا جائے، بیماری کی درست تشخیص کے بغیر علاج ممکن نہیں اُور معاشرے سے انتہا پسندی کے کینسر کا خاتمہ ضروری ہے۔‏

‏تشدد کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جب ذاتی مفادات کے لئے مذہبی جذبات کا استحصال کیا گیا ہے اور جب تک اس کا مکمل حساب کتاب نہیں کیا جائے گا، یہ آخری واقعہ نہیں ہوگا۔‏

‏پاکستان میں بہت سے مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو توہین مذہب کے جھوٹے الزامات کی بنیاد پر ہجوم کے غضب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس تشدد کا شکار ہونے والے بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی آپ بیتی سنانے کے لئے زندہ نہیں رہے جبکہ متعدد واقعات کا سراغ ذاتی انتقام یا جائیداد پر قبضہ کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔‏

‏ناخواندہ اور ذہنی طور پر معذور افراد پر توہین آمیز مواد لکھنے یا فارورڈ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے جبکہ مذہب کی توہین کی بے بنیاد افواہیں خونی فسادات بھڑکانے کے لیے کافی ہیں۔‏

‏اس کے باوجود مذہبی جنونیت کی پیش قدمی صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ بھارت میں ہندوتوا کے صدمے سے دوچار فوجیوں نے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف بھی تشدد شروع کر رکھا ہے۔‏

‏بابری مسجد کا انہدام‏‏ ایک ایسا ہی خوفناک واقعہ (سانحہ) تھا۔‏

‏مسلمانوں کو گائے کا گوشت لے جانے یا رکھنے کے شک میں پیٹ پیٹ کر قتل کیا گیا ہے۔ متعصب ریاستی ایجنسیوں نے مسلمانوں کے گھروں اُور دکانوں حتی کہ عبادت گاہوں کو بھی مسمار کیا ہے جبکہ مشکوک شہریت قوانین نے ان لوگوں سے پوچھ گچھ کی ہے جن کی نسلیں 'حقیقی' ہندوستانیوں کے طور پر بھارت ہی میں پیوست اُور اچھی طرح سے ثابت ہیں۔‏

‏بھارت میں سکھوں کی طرح عیسائی بھی محفوظ نہیں ہیں جیسا کہ ‏‏منی پور میں ہوئے حالیہ فرقہ وارانہ فسادات سے ایک مرتبہ پھر ثابت ہوا ہے جہاں تقریبا دو سو لوگ پرتشدد واقعات میں مارے گئے اور سینکڑوں گرجا گھروں کو مبینہ طور پر نذر آتش کر دیا گیا۔ واضح طور پر سرحد کے دونوں اطراف کے لوگ ایک ہی قسم کی ذہنیت (ڈی این اے) رکھتے ہیں اُور اس ذہنیت کی وجہ سے اقلیتیں محفوظ ہیں۔‏

‏ایسا لگتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کی یہ خاص قسم جنوبی ایشیائی ممالک کی خصوصیت اُور پہچان بن گئی ہے۔ اگرچہ دیگر مسلم ریاستوں میں اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک ہوتا ہے لیکن پاکستان ایسے مسلم ممالک کی صف میں سب سے آگے کھڑا ہے۔‏

‏سعودی عرب، ایران، مصر وغیرہ میں مبینہ توہین رسالت کا بدلہ لینے کے لیے پرہجوم تشدد اور جنون کے بارے میں اس کثرت سے واقعات رونما نہیں ہوتے جس قدر پاکستان میں ہوتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ معاشرے سے برداشت ختم ہو گئی ہے؟‏

‏اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان ممالک میں ریاست محافظ گروہوں یا خود ساختہ عقیدے کے محافظوں کو بھیڑ جمع کرنے اور انہیں بے سہارا متاثرین پر چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔‏

‏پاکستان میں حالات مختلف ہیں۔ دہائیوں تک، ریاست نے جنونیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور اُن کے اقدامات کو برداشت کیا جبکہ وہ ناقابل برداشت تھے۔ اس قسم کے روئیوں کی بڑی وجہ غربت اور جہالت ہے۔ کم خواندگی کی وجہ سے انسانیت کا احترام عام نہیں ہے اُور لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں حالانکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب نفرت کا درس نہیں دیتا تو پھر مذہب کے نام پر تشدد کیوں ہوتا ہے؟‏

‏طرز عمل کی اصلاح کے لئے اب بھی وقت ہے. سب سے پہلی ذمہ داری ریاست کی ہے کہ وہ انتہا پسندی کی موجودگی کو تسلیم کرے اُور اس کا سدباب کرے۔ جب ہم مرض کو تشخیص اُور اس کی موجودگی کا اعتراف ہی نہیں کریں گے تو پھر اس کا علاج بھی ممکن نہیں ہوگا۔ قانون پر عمل درآمد ضروری ہے۔ تشدد کرنے والوں کو قرار واقعی سزائیں دینے سے جنونی صورتحال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ مذہبی تشدد اُور جنون کی آگ معاشرے کی جملہ خوبیوں کو جلا کر خاکستر کر رہی ہیں! بنیاد پرستی اُور انتہا پسندی کا خاتمہ برداشت اُور تحمل پر مبنی روئیوں کے فروغ سے ممکن ہے جس کے لئے سماجی سطح پر بھی اصلاحی کام کاج کی ضرورت ہے۔