انتخابات: غیر ضروری تاخیر

پاکستان اس وقت بے یقینی کی صورتحال سے دوچار ہے، ڈالر کی پرواز ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی، روپےکو بے قدری کا سامنا ہے۔ معیشت میں جو کچھ ہفتے پہلے استحکام آیا تھا وہ ایک بار پھر آنکھوں سے اوجھل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

 کارخانوں کے باہر پہلے تو قطاریں اس بات کا ثبوت تھیں کہ بہرحال پاکستان میں روزگار موجود ہے اور کارخانوں کے باہر قطاروں میں لگے لوگوں میں سے اندر جتنی ضرورت ہے اتنے لوگوںکو مل مالکان روزگار دیتے دکھائی دے رہے تھے مگر آج کل تو عجیب کشمکش کا سامنا ہے، کارخانے ہی بند ہونا شروع ہوگئے ہیں، کہیں بجلی کی قیمتوں پر احتجاج ہورہا ہے تو کہیں گیس کی قیمتوں پرہڑتال۔ یہ احتجاج رکنے کا نام نہیں لے رہا، لگتا ہے اگلے کئی سال تک جاری رہے گا۔ کیوں کہ اس ملک کے فیصلہ سازوں کو اب بھی اندازہ نہیں ہے کہ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں، اس آگ سے کھیلنا نقصان دہ تو ہوگا ہی ساتھ وہ گھر بھی جل جائیں گے جنہیں اس آگ سے خطرہ نہیں ہے۔

کیوں کہ ملک میں آگ لگانے والے تو بہت ہیں مگر بجھانے والا کوئی نہیں۔ کچھ ایسا ہی کام الیکشن کمیشن نے شروع کردیا ہے، جو بضد ہے کہ انتخابات موجودہ حلقہ بندیوں پر نہیں ہوسکتے کیوں کہ نئی مردم شماری کے منظور ہونے کے بعد یہ ضروری ہے کہ نئی حلقہ بندیاں کی جائیں، الیکشن کمیشن سے گزارش ہے کہ یہ کام اتنا مشکل تو نہیں کہ اس میں 3 سے 6 ماہ کا وقت لگ جائے، ڈیجیٹل زمانہ ہے اور مردم شماری بھی ڈیجیٹل انداز میں ہوئی ہے، پھر جدید ٹیکنالوجی اور گوگل میپ وغیرہ جیسے جدید سائنسی ٹولز کے ہوتے ہوئے حلقہ بندیوں میں اتنا وقت تو نہیں لگنا چاہئے، آج کے جدید دور میں تو یہ کام 4 ہفتوں میں مکمل ہوسکتا ہے۔ 

مگر اصل مسئلہ تو کچھ اور ہے جس کی وجہ سے یہ انتخابات ملتوی کیے جارہے ہیں، لگتا یہی ہے کہ نواز شریف کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے اور 2018ء میں جو فاش غلطی ہوئی تھی اس کا ازالہ کرنے کے لیے عوام کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے کیوں کہ موجودہ مردم شماری پر سندھ کے شدید تحفظات ہیں جن پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں اور جس پی پی پی نے موجودہ مردم شماری کو سی ای سی میں منظور کروایا وہ بھی آج اس مردم شماری کے نتائج پر کھل کر بات کررہی ہے کیوں کہ اس کو بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ اس کے ساتھ ہاتھ ہوسکتا ہے کیوں کہ سندھ میں غیر معیاری اور غیر شفاف حلقہ بندیوں سے سب سے زیادہ نقصان بھی پیپلز پارٹی کو ہوگا جس کی نشستوں کو اس طرح کاٹا پیٹا جائے گا کہ کوئی بھی رہنما آسانی سے نشست نہ جیت سکے اور پیپلز پارٹی جو بلاشبہ سندھ کی مقبول جماعت ہے اسے محدود کیا جائے اور سندھ میں کچھ آزاد امیدوار جتوا کر پیپلز پارٹی کو کمزور کیا جائے تاکہ حکومت اگر بن بھی جائے تو پیپلز پارٹی پر پریشر موجود رہے۔

 دوسری جانب شہری حلقوں میں بھی پیپلز پارٹی کی جیتی ہوئی نشستوں کواس طرح تقسیم کیا جاسکتا ہے جس سے پیپلز پارٹی کراچی اور حیدرآباد میں جیتی ہوئی نشستوں سے ہاتھ دھو سکتی ہے کیوں کہ طاقتور لوگ نہیں چاہیں گے کہ پی پی پی کو سندھ میں فری ہینڈ دیا جائے لہذا اس کے لئےایک طرف نواز شریف کے لیے حالات سازگار کیے جارہے ہیں دوسری طرف انتخابات کو التوا میں ڈال کر حلقہ بندیوں کے ذریعے پیپلز پارٹی کے ہاتھ باندھنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ پی پی پی قیادت نے اگر مزاحمت نہ کی تو آنے والے دنوں میں نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا، باقی صدر آصف علی سمجھدار آدمی ہیں ان کے ساتھ دھوکہ کرنے والے نہ پہلےکامیاب ہوئے نہ کل ہوں گے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ دھوکہ ہوگیا اس کا مطلب یہ ہے کہ الیکشن اگلے سال کرواکر ملک کے ساتھ دھوکہ کیا جارہا ہے کیوں کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ ہوا تو ڈالر 500 کو بھی چھو سکتا ہے، خدارا ملک پر رحم کریں۔