ذرائع ابلاغ کی نظروں سے دور، حالیہ چند دنوں کے دوران گلگت بلتستان میں امن و امان کی پریشان کن صورتحال سے متعلق سوشل میڈیا میں منظرکشی ہو رہی ہے۔ جنت نظیر پہاڑی علاقے میں احتجاجی مظاہرے اور ان مظاہروں کے ردعمل میں جوابی مظاہروں کی وجہ سے معمولات زندگی متاثر ہیں۔ اہم راستوں اُور کاروباری مراکز کو بند کر دیا گیا ہے اور موبائل انٹرنیٹ سروسیز بھی بند ہیں کیونکہ فرقہ وارانہ منافرت نے پورے علاقے کو گھیر رکھا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ایک مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنما کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا، جنہوں نے گزشتہ ماہ ایک متنازعہ بیان دیا تھا۔
چلاس اور دیگر مقامات پر احتجاج کے بعد مذکورہ عالم دین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سکردو اور دیگر قصبوں میں مظاہرے ہوئے جبکہ ایک اور عالم دین کی جانب سے مبینہ طور پر توہین آمیز ریمارکس دیئے گئے جس کے نتیجے میں اس شخص کے خلاف بھی مقدمہ درج کر لیا گیا۔
فرقہ وارانہ اختلافات صرف مظاہروں کا محرک ہوسکتے ہیں، کیونکہ گلگت بلتستان میں اشتعال انگیزی کو ہوا دینے والے کئی دیگر عوامل بھی ہیں۔
ریاست کی جانب سے فوجداری قوانین (ترمیمی) بل، 2023 کو پارلیمنٹ کے ذریعے پیش کیے جانے سے یقینی طور پر فرقہ وارانہ بحثوں میں نئی جان پھونک دی گئی ہے جو اس سے قبل غیر فعال تھے۔
گلگت بلتستان ایسا پہلا علاقہ ہوسکتا ہے جہاں مذکورہ متنازعہ قانون سازی کی بدولت تنگ نظری پھر سے زندہ ہوئی ہے اور جب تک جمہوری قوتیں اور روشن خیال علما بات نہیں کریں گے، نفرت کی آگ پھیل سکتی ہے، خاص طور پر ملک کے ان مقامات پر جہاں فرقہ وارانہ کشیدگی پہلے ہی زیادہ ہے۔
ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ اب حالات بہتر ہو رہے ہیں کیونکہ خطے کے وزیر اعلیٰ نے شیعہ اور سنی دونوں علما سے ملاقاتیں کی ہیں، جنہوں نے پرامن رہنے کا وعدہ کیا ہے۔ نگران وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا ہے کہ علاقے میں امن و استحکام کا ماحول ہے جبکہ فوج کو صرف چہلم امام حسین رضی اللہ عنہ کے دوران امن برقرار رکھنے کے لیے بلایا گیا تھا۔
اگرچہ گلگت بلتستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران جہاں بین الفرقہ وارانہ تعلقات کا تعلق ہے تو معاملات میں بہتری آئی ہے۔
لہٰذا مقامی انتظامیہ اور دونوں فرقوں کے علما کو قیام امن کی کوششوں کی حمایت کرنے اور تفرقہ انگیز ایجنڈے کو فروغ دینے والوں سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔
خاص طور پر نفرت انگیز گروہوں کو فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کی کوشش میں زہریلے خیالات پھیلانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے لیکن گلگت بلتستان سے باہر، جب تک زیر بحث بل، خاص طور پر توہین مذہب کے قانون میں ترامیم پر نظر ثانی نہیں کی جاتی، اس سے انتہا پسندی میں اضافہ ہوگا اور معاشرے میں خرابیوں کی لکیریں بڑھیں گی۔
مذہبی اور فرقہ ورانہ مسائل کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنا کی بجائے متعلقہ ماہرین کے حوالے کر دینا چاہئے جو اس نازک و حساس مسئلے پر زیادہ بہتر طریقے سے بات کر سکتے ہیں۔ پارلیمان سے بغیر بحث اُور جلد بازی میں منظور کئے جانے والے قوانین یا قوانین میں ترمیم سے مذہبی اختلافات اُور فرقہ ورانہ تقسیم میں اضافہ ہوا ہے
اس طرح کے حساس معاملات کو بے ترتیب قانون سازی کی بجائے غوروفکر سے حل کیا جانا چاہیئے۔ چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے پاکستان خوفناک فرقہ وارانہ تشدد کے اثرات سے دوچار ہے۔ توہین رسالت کے قوانین کے غلط استعمال اور اس سے پیدا ہونے والے تشدد کو روکنے کے لیے آئین میں کی گئیں ترامیم پر دوبارہ (از سر نو) غور کرنے کی ضرورت ہے۔