دلچسپ سوال ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی میں یہ ’تبدیلی‘ کیسے آئی کہ انہوں نے بڑے بھائی کا بھی ساتھ چھوڑ دیا جو انہیں انگلی پکڑ کر سیاست میں لائے تھے۔
اس کی روداد بہت دلچسپ ہے اُور پاکستان کی سیاست سے لگاؤ رکھنے والوں کو یہ تاریخی پس منظر چاہیئے کہ مارچ اور اپریل2022کے درمیان ایسا کیا ہوا کہ شہباز شریف کی جگہ وزیراعظم بنتے بنتے ایک ’ کال‘ پر بنی گالہ چلے گئے اور یوں جو گاڑی وزیراعظم ہاوس جارہی تھی وہ ’ اٹک جیل‘ پہنچ گئی۔ سنا ہے جیل کی دوستی بڑی پائیدار ہوتی ہے۔
’ چوہدریوں‘ نے 80 کی دہائی سے آج تک’ ریاست‘ اور اس کے اداروں کے ساتھ بے وفائی نہیں کی۔ ’ریاست کے اندر ریاست‘ کے تصور کو ان سے اور شریفوں سے زیادہ بہتر کون جان سکتا ہے۔ بھٹو سے اختلافات کی تاریخ ہے اسی لیے 18اکتوبر 1999 کو بے نظیر بھٹو نے خودکش حملے کے بعد جو خط لکھا تھا، اپنے قتل کی سازش کا، اس میں پرویز الٰہی کا نام بھی شامل تھا۔
محترمہ کی شہادت کے بعد 2008 میں جب پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان چند ماہ کے ’ ہنی مون‘ کے بعد کشیدگی بڑھی تو آصف زرداری لاہور میں ’’چوہدری برادران‘‘ کے پاس پہنچ گئے اور جو الفاظ پرویز الٰہی نے مجھے بتائے زرداری صاحب کے وہ کچھ یوں تھے۔’’ میں نہیں چاہتا کے ہمارے بچے دشمنیوں میں جوان ہوں۔ سچ یہ ہے کہ انہوں نے پھر تعلق نبھایا بھی اور ہمارے نہ مانگنے کے باوجود کابینہ میں لیا ‘‘۔پرویز الٰہی نائب وزیراعظم بنے۔ ایسا ہی کچھ عمران کیخلاف اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد ہونے جارہا تھا کہ ’ کال ‘ آہی گئی۔
ایسا ہی کچھ چوہدریوں اور عمران کے تعلقات میں ہوا۔
سال دوہزار دو کے انتخابات ہونے والے تھے کہ عمران کو ’ ایوان صدر‘ سے فون آیا کےا لیکشن کے سلسلے میں اجلاس ہے۔ خان صاحب نے ’ کور کمیٹی‘ جس میں پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل معراج محمد خان اور حامد خان بھی شامل تھے کو اعتماد میں لیا تاہم حامد خان نے جنرل مشرف سےملاقات سے انکار کردیا ان کا موقف تھا کہ اس سے پارٹی کو نقصان ہوگا معراج صاحب کا بھی یہی موقف تھا تاہم عمران کے کہنے پر وہ ساتھ چلے گئے اس کا احوال خود معراج صاحب نے ایک بار سنایا تھا کہ۔’’ وہاں پہنچے تو ایک طرف چوہدری شجاعت تو دوسری طرف پرویزالٰہی تھے۔ ان دونوں سے خان کو اتنی ہی نفرت تھی جتنی شریفوں اور زرداریوں سے۔