سی پیک کا جواب

نئی دلی میں ہونے والی جی 20 سربراہ کانفرنس کے موقع پر بھارت سعودی عرب اور یورپی یونین کے درمیان ایک مفاہنتی یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں، جس کے تحت بھارت سے مشرق وسطی اور یورپ تک ایک نیا تجارتی نیٹ ورک بنایا جائے گا۔

مفاہمتی یاداشت پر دستخطوں کا اعلان بھارتی وزیراعظم اور یورپی یونین کی کمشنر نے کیا۔

اس مجوزہ تجارتی اراداری کو چین کی جانب سے زیر تعمیر بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا جواب قرار دیا جا رہا ہے اور امریکہ بھی اس کی حمایت کر رہا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس منصوبے کو بہت اہم قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان سے گزرنے والا سی پیک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا حصہ ہے۔

منصوبے کے تحت بھارت سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، اردن اسرائیل اور دیگر ممالک کو ایک راہداری سے منسلک کیا جائے گا تاکہ تجارتی سامان کی ترسیل میں 40 فیصد تیزی آسکے۔ اس مقصد کے لیے بندرگاہوں اور ریل نیٹ ورک کو ایک دوسرے سے جوڑا جائے گا اور بندرگاہوں پر نئی تعمیرات ہوں گی۔

تاہم گارجین کے مطابق منصوبے کا ایک اور اہم مقصد اسرائیل اور عرب ممالک کو قریب لانا ہے۔ اسرائیل کے سعودی عرب کے ساتھ تاحال سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔

برطانیہ اخبار گارجین کے مطابق تاحال منصوبے کے خد و خال زیادہ واضح نہیں اور یہ بھی طے نہیں کیا گیا کہ منصوبے کے لیے رقم کون فراہم کرے گا۔ ایک ورکنگ گروپ اس حوالے سے تفصیلات ائندہ 60 دنوں میں طے کرے گا۔

اس منصوبے کو پارٹنرشپ فار گلوبل انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ Partnership for Global Infrastructure Investment کا نام دیا گیا ہے۔

امریکہ کے مشیر سلامتی جیک سلیون کے مطابق منصوبے پر بات چیت کا اغاز گزشتہ برس جولائی میں امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر ہوا اور اس کے بعد سعودی عرب متحدہ عرب امارات اور بھارت کے درمیان اس پر بات چیت ہوئی۔

منصوبے کے حوالے سے بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والے نقشوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کی ممبئی بندرگاہ سے متحدہ عرب امارات تک سمندری راستے سے سامان پہنچے گا۔

متحدہ عرب امارات سے تجارتی سامان زمینی راستے سے سعودی عرب سے ہوتا ہوا اردن اور پھر اسرائیل پہنچے گا۔

یہاں سے ایک بار پھر سمندری راستے سے سامان یونان پہنچایا جائے گا اور اس کے بعد یہ ریل نیٹ ورک کے ذریعے یورپ کے مختلف ممالک کو پہنچے گا۔

تاہم چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو بہت بڑا منصوبہ ہے جو کئی ممالک تک پھیلا ہوا ہے مغرب کی جانب سے جون 2022 میں بھی ایک بڑے منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا جس کے تحت 600 ارب ڈالر سے دنیا کے کئی ملکوں میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کی جانی تھی۔ لیکن بعد میں اس طرح اس پر پیش رفت نہ ہوئی۔