نواز شریف کی وطن واپسی پر کن مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا؟

سابق وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ کے قائد نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آ جائیں گے۔

لندن میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 21 اکتوبر کو پورا پاکستان لاہور میں نواز شریف کا استقبال کرے گا۔

سابق وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ اگر سنہ 2018 کے متنازع الیکشن کے نتیجے میں ترقی کا تسلسل نہ ٹوٹتا تو پاکستان بہت آگے ہوتا۔

ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف نے کہا کہ وہ نواز شریف سے پہلے پاکستان آ جائیں گے اور اپنے قائد کا استقبال کریں گے۔

شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف کی واپسی سے دوبارہ معیشت اور ملک اسی طرح ترقی کرے گا جیسا 2017 میں کر رہا تھا۔ انھوں نے کہا کہ نواز شریف کو ایک جھوٹے مقدمے کی ذریعے اقتدار سے محروم کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ سابق وزیراعظم علاج کی غرض سے سنہ 2019 میں برطانیہ چلے گئے تھے اور پانامہ ریفرنسز میں عدالت کی طرف سے دی گئی چار ہفتے کی مدت میں وہ واپس نہیں آئے، جس کے بعد ان کے ناقابل ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری کر دیے گئے تھے۔

سابق وزیراعظم شہباز شریف نے حال ہی میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ نواز شریف وطن واپسی پر اپنے خلاف درج مقدمات کا سامنا کریں گے کیونکہ ان کی جماعت قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے۔ تاہم یہ دیکھنا ضروری ہے کہ نواز شریف کے خلاف کون کون سے مقدمات قائم ہیں جن کا انھیں سامنا ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا آئینی فریضہ ہے۔ ان کے مطابق اب نئی مردم شماری کے تحت الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے جو انھیں امید ہے کہ کمیشن یہ فریضہ انجام دے گا۔

نواز شریف

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو علاج کی غرض سے لندن بھیجے جانے کے عدالتی فیصلے میں شہباز شریف کی جانب سے ایک بیان حلفی جمع کرایا گیا تھا جس میں انھوں نے اپنے بھائی کی پاکستان واپس آنے سے متعلق ضمانت دی تھی۔

شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ میں میاں نواز شریف کو بیرون ملک بھیجے جانے پر ان کی واپسی سے متعلق جو بیان حلفی دیا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ ان کے بڑے بھائی میاں نواز شریف چار ہفتوں کے لیے علاج کی غرض سے بیرون ملک جا رہے ہیں اور یہ کہ اگر اس عرصے کے دوران نواز شریف کی صحت بحال ہو گئی اور ڈاکٹروں نے انھیں پاکستان جانے کی اجازت دے دی تو وہ وطن واپس آ جائیں گے۔

اس وقت میاں شہباز شریف کے علاوہ میاں نواز شریف کا بیان حلفی بھی عدالت میں جمع کروایا گیا تھا جس میں انھوں نے یہ کہا تھا کہ وہ اپنے بھائی کی طرف سے دیے گئے بیان حلفی کی پاسداری کرنے کے پابند ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اکتوبر 2019 میں العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر آٹھ ہفتوں کے لیے ضمانت منظور کی تھی اور اس حوالے سے انھیں بیس بیس لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے ضمانت کی مدت میں توسیع کا اختیار پنجاب حکومت کو دیا تھا تاہم صوبائی حکومت نے اس مدت میں توسیع نہیں کی تھی۔ العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں ملنے والی سزا کے خلاف اپیل میں بھی سابق وزیر اعظم عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے انھیں دو دسمبر سنہ 2020 کو اشتہاری قرار دے دیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس معاملے میں میاں نواز شریف کے ضامنوں کو نوٹس جاری کر رکھے ہیں کہ کیوں نہ ان کے زرضمانت بحق سرکار ضبط کر لی جائے۔

پانامہ پیپرز کے جاری ہونے کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف تین ریفرنسز قائم کیے گئے تھے۔ نیب کی احتساب عدالت نے ان میں سے ایون فیلڈ ریفرنس میں پہلے نواز شریف کو سنہ 2018 کے عام انتخابات سے چند ہفتے قبل جیل کی سزا سنائی۔ اس ریفرنس میں نواز شریف کی ضمانت اسلام آباد ہائی کورٹ نے منظور کی تھی۔

نواز شریف کو فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس سے احتساب عدالت نے بری کر دیا تھا جبکہ العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں انھیں سزا سنائی گئی تھی۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کے علاوہ ان کی بیٹی مریم نواز شریف اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر اعوان کو بھی جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔ بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو اس ریفرنس سے بری کر دیا گیا مگر ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے نواز شریف کے مقدمے کو علیحدہ کر لیا گیا تھا۔

قانونی ماہرین کے مطابق اب جب نواز شریف وطن واپس آئیں گے تو پھر وہ اس مقدمے میں بھی درخواست دائر کر کے بریت کی درخواست دائر کر سکتے ہیں۔