کرکٹ : مایوسیوں کا تسلسل

پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ایشیا کپ کے سپر فور مرحلے کا انتہائی اہم میچ کھیلا گیا جو سیمی فائنل کی صورت اختیار کرگیا تھا اس میچ میں میزبان ٹیم نے گرین شرٹس کو دلچسپ مقابلے کے بعد 2 وکٹوں سے شکست دے دی تھی۔

جب پاکستان کرکٹ ٹیم ایک روزہ کرکٹ کی نمبر 1 ٹیم کی حیثیت سے ایشیا کپ میں داخل ہوئی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ ٹیم اس ایونٹ کا فائنل نہیں کھیلے گی، مگر پھر یہ ہوگیا اور سری لنکا نے ایک اہم ترین میچ میں پاکستان کو 2 وکٹوں سے شکست دے کر فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا جبکہ قومی ٹیم نے واپس گھر آنے کی تیاری کرلی اور اب 17 ستمبر کو بھارت اور سری لنکا کی ٹیمیں کولمبو کے میدان میں فائنل کھیلیں گی۔

اس شکست کے بعد ایک نقصان اب یہ بھی ہوگیا ہے کہ ایک روزہ رینکنگ میں قومی ٹیم پہلے نمبر سے تیسرے نمبر پر آگئی ہے۔ پہلی پوزیشن پر آسٹریلیا موجود ہے جبکہ دوسرے نمبر اب بھارتی ٹیم آچکی ہے، یعنی اب ہماری یہ امیدیں بھی دم توڑ گئیں کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کرکٹ ورلڈ کپ میں بطور نمبر 1 ٹیم داخل ہو۔

جب سے یہ خبر آئی ہے کہ قومی ٹیم ایشیا کپ سے باہر ہوگئی ہے تب سے تجزیوں کی بھرمار ہوچکی ہے، ہر کوئی اس شکست کو اپنے اپنے انداز میں بیان کررہا ہے، لیکن اگر اس پوری صورتحال کی کوئی ایک بڑی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ بابر اعظم کی کپتانی ہے، مگر بدقسمتی سے یہ ایک ایسا موضوع بن گیا ہے جس پر بات کرتے ہوئے اب خوف آتا ہے کیونکہ جذبات سے سرشار شائقین کرکٹ بابر اعظم سے متعلق بات سننے کو اب تیار نہیں ہیں۔

لہٰذا ہم کوشش کریں گے کہ اپنی رائے سے زیادہ ان اعداد و شمار کو پیش کریں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ کن کن بڑے ایونٹس میں پاکستان کامیابی حاصل کرسکتا تھا مگر محض کپتان کے غلط فیصلوں یا دفاعی حکمت عملی کی وجہ سے ہم وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔

سب سے پہلے اس ایشیا کپ کی بات کرلیتے ہیں۔ 2 ستمبر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ کھیلا گیا جس میں پاکستان کے فاسٹ بولرز نے توقعات کے عین مطابق بھارت کے ابتدائی بلے بازوں کو بہت جلد پویلین کی راہ دکھا دی تھی اور صرف 66 رنز پر 4 اہم ترین کھلاڑی آؤٹ ہوگئے تھے۔ یہ وہ موقع تھا جب پاکستان کی جانب سے بھرپور اٹیک ہونا چاہیے تھا اور جلد از جلد بھارت کی پوری ٹیم کو پویلین کی راہ دکھائی جاتی مگر کپتان شاید ہماری اس رائے سے اتفاق نہ کرسکے۔

جب بھارتی ٹیم پر دباؤ بنائے رکھنے کی ضرورت تھی تب بابر اعظم نے شاداب خان اور محمد نواز کو بولنگ پر لگائے رکھا اور اس کے نتیجے میں وکٹ پر موجود ایشان کشن اور ہارڈک پانڈیا کو سنبھلنے کا موقع مل گیا جس کے نتیجے میں 5ویں وکٹ کے لیے 138 رنز کی زبردست شراکت داری قائم ہوگئی اور بھارت نے مقررہ 50 اوورز میں 266 رنز بنالیے۔

اس اننگ میں ایک اور اہم کام یہ ہوا جن فاسٹ بولرز نے تمام 10 وکٹیں حاصل کیں ان کے پورے 10 اوورز ہی مکمل نہیں کروائے گئے حالانکہ شاداب خان، افتخار احمد اور سلمان آغا کے کچھ اوورز کم کرکے فاسٹ بولرز سے اوورز مکمل کروائے جاسکتے تھے یوں نہ صرف رنز بھی کم بنتے بلکہ وکٹیں بھی جلدی گر جاتیں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ بارش کی وجہ سے میچ مکمل نہیں ہوسکا جس کے سبب ہم آج تک یہ دعوی کررہے ہیں کہ اگر یہ میچ مکمل ہوجاتا تو پاکستان کی جیت یقینی تھی۔1

پھر اس کے بعد بالکل یہ صورتحال بنگلہ دیش کے میچ میں ہوئی جب 47 رنز پر بنگلہ دیش کے 4 کھلاڑی آؤٹ ہوگئے مگر ہم نے ایک بار پھر 5ویں وکٹ کے لیے 100 رنز کی شراکت داری بنانے کا موقع دیا مگر خوش قسمتی سے بنگلہ دیش کی ٹیم زیادہ رنز نہیں بناسکی اور پوری ٹیم 193 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔

اس میچ میں بھی پاکستان کے فاسٹ بولرز کی جانب سے 9 وکٹیں حاصل کی گئیں، اور اگر شاداب خان سے غیر ضروری 7 اوورز نہیں کروائے جاتے تو یقیناً پاکستان بنگلہ دیش کو مزید پہلے آؤٹ کرلیتی۔

یہ میچ ہماری انہی غلطیوں کی وجہ سے سیمی فائنل کی صورت اختیار کرگیا تھا مگر اس اہم ترین میچ میں بھی ہم نے وہی غلطیاں کیں جو گزشتہ کئی عرصے سے کرتے آرہے تھے۔ یہاں ہم ضرور اس بات کی گنجائش نکالنے کے لیے تیار ہیں کہ ہمارے جو اہم ترین کھلاڑی تھے وہ انجری کی وجہ سے ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے مگر جو کھلاڑی میسر تھے ان کے ساتھ بھی یہ میچ آسانی کے ساتھ جیتا جاسکتا تھا۔

سب سے پہلے تو ہمیں بیٹنگ کی طرف سے اچھا آغاز نہیں مل سکا مگر محمد رضوان اور افتخار احمد کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے جنہوں نے دباؤ کے باوجود خود کو سنبھالے رکھا اور چھٹی وکٹ کے لیے 108 رنز کی شاندار پارٹنرشپ قائم کی اور پاکستان نے 42 اوورز میں 252 رنز بنالیے جن کو دیکھتے ہوئے یہ امید ہوچلی تھی کہ پاکستان کے بولرز ان کا دفاع کرلیں گے۔

پھر ابتدا میں شاداب خان کی جانب سے شاندار رن آؤٹ ہوگیا تو پہلی وکٹ کے ساتھ ہماری امیدوں میں مزید اضافہ ہوگیا لیکن اس کے بعد جو سری لنکن بلے بازوں نے ہمارے ساتھ کیا وہ بھلانے کی کوشش بھی کی جائے تو نہیں بھول سکتے۔

چونکہ یہ میچ 42 اوورز کا تھا تو یہ شرط بھی لاگو کردی گئی تھی کہ کوئی 2 بولرز 9 اوورز کرسکتے ہیں جبکہ 3 بولرز 8 اوورز کرسکتے ہیں اور آپ کمال دیکھیے کہ کپتان بابر اعظم نے ان 9 اوورز کا کوٹہ شاہین آفریدی اور شاداب خان سے کروایا۔ شاہین آفریدی کا تو ہونا ہی چاہیے تھا مگر کوئی بابر اعظم صاحب سے اکیلے میں ہی پوچھ لے کہ جناب یہ شاداب خان سے زیادہ سے زیادہ اوورز کروانے کی لت آپ کو کب اور کیسے لگی؟

مطلب آپ انداز کیجیے کہ 3.71 کی زبردست اوسط سے بولنگ کرنے والے محمد نواز سے صرف 7 اوورز کروائے گئے، اسی طرح بھرپور صلاحیتوں کے حامل نوجوان زمان خان سے صرف 6 اوورز کروائے تھے، محمد وسیم جونیئر جو اگرچہ بہت مہنگے ثابت ہوئے ان سے 3 اوورز کروائے گئے لیکن شاداب خان جنہوں نے 6.11 کی اوسط سے رنز دیے ان سے پہلے ہی ان کے کھاتے کے اوورز مکمل کروا لیے گئے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیا کپتان سوچتے کم ہیں یا جو سوچتے ہیں وہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے؟

چلیے یہ غلطی تو کپتان نے کرلی سو کرلی، مگر وہ اختتامی تقریب میں کہہ رہے تھے کہ بولرز اور فیلڈرز نے اچھا کھیل پیش نہیں کیا، مگر کاش کوئی ان سے یہ پوچھ لیتا کہ جناب جن بولرز نے اچھی بولنگ کی آپ نے ان کو کتنے اوورز دیے؟

لیکن اگر آپ سمجھ رہے کہ محض ان 3 میچوں کی بدولت ہم بابر اعظم کی کپتانی پر تنقید کررہے ہیں تو ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ اب ہم آپ کو گزشتہ 2 سالوں میں میگا ایونٹس کے کچھ اہم میچوں کی تفصیل بھی بتائیں گے جو ثابت کرتے ہیں کہ اگر کپتان کی طرف سے کچھ بروقت، جارحانہ اور اچھے فیصلے ہوجاتے تو ہم ان اعزازات کو اپنے نام کرسکتے تھے۔

2021 کے ٹی20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیمیں آمنے سامنے آئیں۔ آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دی اور بابر اعظم اور محمد رضوان کی جانب سے قومی ٹیم کو رنز سے اعتبار سے اچھا مگر رن ریٹ کے حساب سے کافی بُرا آغاز ملا اور 17.3 اوورز میں جب محمد رضوان کی صورت میں پاکستان کی دوسری وکٹ گری تو پاکستان کے صرف 143 رنز تھے۔

بابر اعظم نے 34 گیندوں پر 37 رنز بنائے تھے اور محمد رضوان نے 52 گیندوں پر 67 رنز، اس موقع پر اگر فخر زمان 32 گیندوں پر 55 رنز نہ بناتے تو پاکستان کا 176 رنز تک پہنچنا مشکل دکھائی دے رہا تھا۔

چلیے 176 رنز کے دفاع کے لیے پاکستان کے بولرز میدان میں اترے تو انہوں نے حسبِ روایت آسٹریلیا کے بلے بازوں کو پریشان کیے رکھا اور 12.2 اوورز تک آدھی ٹیم 96 رنز پر پویلین لوٹ چکی تھی۔

اب ایک ایسی ٹیم جس کے 5 کھلاڑی آؤٹ ہوچکے ہوں اور اسے میچ جینے کے لیے 10.8 کی اوسط سے 81 رنز درکار ہوں اس کے بارے میں یہ امید کم ہی کی جاسکتی تھی کہ وہ یہ میچ جیت جائے، مگر آسٹریلیا نے نہ صرف وہ میچ جیتا بلکہ 5 وکٹوں سے اور 1 اوور پہلے جیتا۔

یہاں کہا جاسکتا ہے کہ اگر شاہین آفریدی کو 3 چھکے نہ لگتے تو پاکستان میچ جیت جاتا مگر ہم اس بارے میں بات کیوں نہیں کرتے کہ جب بھی مخالف ٹیم پر دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت ہم ٹھنڈے کیوں پڑجاتے ہیں؟

ٹھیک 1 سال بعد دبئی کے اسی میدان میں پاکستان اور سری لنکا کی ٹیمیں ایشیا کپ کے فائنل میں آمنے سامنے آتی ہیں اور قومی ٹیم اس میچ میں بطور فیورٹ داخل ہوتی ہے۔

اس میچ میں پاکستان نے ٹاس جیتا اور سری لنکا کو بیٹنگ کی دعوت دی اور پاکستان کے بولرز نے اس میچ میں بھی اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کیا اور سری لنکا کی آدھی ٹیم 58 رنز پر پویلین بھیج دی۔ لیکن یہاں ایک بار پھر کپتان بابر اعظم نے دباؤ بڑھانے کے بجائے اس بات کی فکر کی کہ اگر ابھی اپنے اہم بولرز کے اوورز مکمل کرلیے تو پھر آخر میں بولنگ کون کرے گا اور اس سوچ کے نتیجے میں سری لنکا نے مقررہ اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 170 رنز بنالیے۔

جواب میں پاکستان کی پوری بیٹنگ لائن 147 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ پاکستان کی جانب سے سب زیادہ 55 رنز محمد رضوان نے بنائے جس کے لیے انہوں نے 49 گیندوں کا سہارا لیا اور اس کے بعد افتخار احمد نے 31 گیندوں پر 32 رنز بنائے۔ واضح رہے کہ ہم یہاں ایک روزہ میچ کا ذکر نہیں کررہے بلکہ ٹی20 کرکٹ کی بات کررہے ہیں۔

اس اہم ترین میچ میں انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ یہ وکٹ مشکل بھی تھی اور میدان بڑا ہونے کی وجہ سے یقیناً بڑے شاٹس کھیلنا آسان نہیں تھا مگر اس پوری اننگ میں ہمارے کھلاڑی صرف گیند کو باؤنڈری لائن سے باہر پھینکنے کی کوشش کرتے رہے اور پوری ٹیم مقررہ اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 137 رنز ہی بناسکی۔

جواب میں پاکستانی بولرز کی کارکردگی بُری نہیں تھی کیونکہ 13ویں اوور میں 84 رنز پر 4 کھلاڑی آؤٹ ہوگئے تھے مگر ایک بار پھر ہم نے بین اسٹوکس کو وکٹ پر رکنے کا ماحول فراہم کیا اور یوں پاکستان دوسری مرتبہ ٹی20 ورلڈ کپ جیتنے سے محروم ہوگیا۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ اس تحریر کا مقصد ہرگز کسی کی ذات کو نشانہ بنانا نہیں ہے مگر اس تحریر کے ذریعے یہ سمجھانے کی ایک کوشش کی گئی ہے کہ بابر اعظم بطور کھلاڑی جس مقام پر ہیں وہ کپتانی کے شعبے میں اس طرح پرفارم نہیں کرپارہے ہیں اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے بلکہ ماضی میں دنیا کے ایسے کئی کھلاڑی ہیں جو ذاتی حیثیت میں تو بہت بڑے کھلاڑی ہیں لیکن جب ٹیم کو لیڈ کرنے کی ذمہ داری ان کو دی گئی تو وہ کچھ زیادہ اچھے نتائج پیش نہیں کرسکے پھر چاہے بات ہو پاکستان کے جاوید میانداد کی، بھارت کے سنیل گاوسکر اور ویرات کوہلی کی، ویسٹ انڈیز کے سر ویو رچرڈز کی، انگلینڈ کے جو روٹ کی۔

اس طرح کی درجنوں مثالیں اور بھی دی جاسکتی ہیں مگر ٹیم انتظامیہ کو اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اب ورلڈ کپ سر پر ہے اس لیے فوری طور پر تو ایسا ممکن نہیں لیکن اگر میگا ایونٹ میں بھی ایسی غلطیاں جاری رہیں تو ضرور کچھ سوچنا ہوگا کیونکہ یہ ٹیم ہم سب کی ہے اور ہم سب اس سے بہتر نتائج کی توقع رکھتے ہیں۔