معاشی بہتری : ضروری اقدامات

اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں ہونے والی بڑی کمی سامنے آئی ہے اور اب ڈالر تین سو روپے سے بھی کم میں فروخت ہو رہا ہے۔

افغانستان اور ایران کی سرحدوں پر بھی چیکنگ بڑھا دی گئی ہے اور سرحدوں پر اسمگلروں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے خفیہ اداروں کی مدد لی جا رہی ہے۔

نومبر میں آئی ایم ایف وفد نے پاکستان میں اگلے پروگرام کے جائزے کے لیے آنا ہے، آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ڈالر کے اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک مارکیٹ ریٹ کے درمیان فرق کو 1.25 فیصد تک محدود رکھنا ہے، یعنی یہ فرق قائم کرنا ضروری ہے اور حکومتی اقدامات اسی تناظر میں اٹھائے گئے ہیں۔
حکومت کی جانب سے حالیہ دنوں میں معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے۔ ڈالر کی اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن نے بھی اس سلسلے میں کام دکھایا ہے، جس کے بعد گرے مارکیٹ میں کام رک گیا ہے۔

دراصل گرے مارکیٹ ایک غیر قانونی مارکیٹ ہے، یعنی اس میں کام کرنے والے افراد بغیر کسی لائسنس یا حکومتی قواعد و ضوابط کے کام کر رہے ہیں، جبکہ پہلے تو حوالہ ہنڈی کو گرے مارکیٹ سمجھا جاتا تھا لیکن اب اس میں ڈالر کی کیش کی صورت میں خرید و فروخت بھی شروع ہوچکی ہے اور اس میں بڑے کمرشل سنٹرز اور دوسرے کاروباری جگہوں پر مختلف اشیا کی خرید و فروخت کے پس پردہ ڈالر کی خرید و فروخت بھی ہوتی ہے۔ اسمگلنگ کا جو مال افغانستان اور ایران سے آتا ہے۔

اس کی ادائیگی ڈالروں میں ہوتی ہے اور اسی طرح وہ افغان جن کا پاکستان میں آنا جانا لگا رہتا ہے وہ روپوں کے بدلے ڈالر لے جاتے ہیں کیونکہ افغانستان میں تو ڈالر کہیں سے آتے نہیں اور پاکستان ہی واحد مارکیٹ ہے جہاں سے وہ ڈالر لے جا سکتے ہیں۔

بلاشبہ اسمگلنگ کے خلاف اقدامات تو ہونے چاہیے کیونکہ ڈالر یہاں سے اسمگل ہوکر پڑوسی ملک میں جاتا ہے تاہم یہ وقتی اقدام نہیں ہونا چاہیے بلکہ مستقبل بنیادوں پر اس کا حل نکالنا چاہیے۔

دوسری جانب طالبان کی جانب سے افغانستان کی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی پر طورخم بارڈر کھول دیا گیا ہے۔

طورخم بارڈر جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت اور انسانی آمدورفت کے لیے اہم راستہ ہے، کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ جیسے ہی پاکستان میں سکیورٹی ادارے پاکستانی علاقوں سے تسلسل کے ساتھ افغانستان میں جاری اسمگلنگ کے خلاف کاروائی کا آغاز کرتے ہیں یا اس کی روک تھام کا فیصلہ کرتے ہیں، افغان سرحد سے پاکستان پر حملوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس شدت کے ساتھ فائرنگ کی جاتی ہے کہ جیسے جنگ برپا ہوگئی ہو۔

ان حملوں میں پاک فوج کی چوکیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ابتداء میں افغان عبوری حکومت اس طرح کی کارروائیوں سے خود کو لاتعلق ظاہر کرتے ہوئے آیندہ کے لیے ایسے حملوں کی روک تھام کی یقین دہانیاں کراتی رہی ہے، لیکن یہ تو سب کچھ افغان حکومت بیان بازی کی حد تک کرتی ہے، جبکہ سب جانتے ہیں کہ پاکستانی طالبان کو افغانستان کی سرزمین پر آزادانہ نقل و حمل کی سہولت حاصل ہے۔

اب دہشت گرد امریکی افواج کے کابل میں چھوڑے ہوئے جدید ہتھیاروں کے ساتھ پاکستان میں سکیورٹی اداروں پر حملوں اور دہشت گردی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسمگلنگ روکنے کے علاوہ افغان ٹریڈ معاہدوں کے تحت افغانستان سے اسمگل ہوکر واپس پاکستان آنے والے اس غیر ملکی سامان کو بھی روکا جائے جو افغان تاجر کراچی کی بندرگاہ سے افغانستان منتقل کرنے کے بعد واپس پاکستان بھیج کر پاکستان کے قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے ہیں۔

علاوہ ازیں اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ان لاکھوں افغانیوں کو عزت و احترام کے ساتھ واپس افغانستان بھیجا جائے تاکہ وہ اپنے ملک کی مضبوط معیشت سے مستفید ہوسکیں۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان سے اشیائے خوردنی افغانستان اسمگل کرکے بھاری منافع کمایا جاتا رہا ہے۔ اس طرح جہاں ایک طرف پاکستان کو ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کا نقصان ہورہا تھا وہاں دوسری طرف ملک میں غذائی اشیا کی قلت اور مہنگائی کے مسائل بھی درپیش رہے تھے۔

بارڈر محفوظ بنانے سے یہ دونوں مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ اس وقت بھی پاکستان میں آٹا، چینی، کوکنگ آئل وغیرہ مہنگا ہونے کی شکایت ہے۔ منشیات کی سب سے بڑی سپلائی افغانستان سے ہوتی ہے جو پوری دنیا میں اسمگل ہوتی ہے۔

سویلین انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ میں سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو ایرانی پٹرول کی اسمگلنگ کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس غیر قانونی دھندے سے قومی خزانے کو سالانہ ساٹھ ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ اگست کے مہینے میں 8 ارب روپے کی مالیت کی چیزیں افغانستان اور ایران سرحد پر پکڑی گئیں۔

سرکاری رپورٹ کے مطابق اگست کے مہینے میں یومیہ28 کروڑ کی اشیائے ضروریہ افغانستان اسمگل سے روکی گئیں، ایک ماہ میں3 ارب سے زائد مالیت کی600گاڑیاں کسٹم حکام نے سرحد پرپکڑیں۔ کسٹم حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران سے تقریبا 3کروڑ لٹر پٹرول اور ڈیزل ماہانہ اسمگل ہورہا ہے، ایران بارڈر پر ایک ماہ میں 11 لاکھ لیٹر پٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ پکڑی گئی۔

اعداد و شمار کے مطابق56کروڑ روپے کے مہنگے موبائل فون بھی پکڑے گئے، 22کروڑ روپے مالیت کی ایفڈرین کی کھیپ بھی پکڑی گئی، 55کروڑ روپ مالیت کے کپڑے کی اسمگلنگ بھی پکڑی گئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے2 ماہ میں چینی کے 25لاکھ تھیلے افغانستان اسمگل ہوئے، پچھلے ایک ماہ میں چینی کے 18 لاکھ تھیلے افغان بارڈر پر پکڑے گئے۔ اعداد وشمار کے مطابق اسمگلرز نے چینی اسمگلنگ سے2 ارب روپے کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔

قدرت کی کون کون سی دولت اور نعمت ایسی ہے جو کہ پاکستان میں موجود نہیں؟ یہاں تیل، گیس، سونا، چاندی، کوئلہ، ماربل، جپسم، نیلم، زمرد اور دیگر ہیرے جواہرات کی کانیں، کھیوڑہ میں دنیا کی نمک کی دوسری سب سے بڑی کان، کاشتکاری کے لیے دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام، پانچ دریا اور ان پر بنائے گئے ڈیم، چار خوبصورت موسم بہار، خزاں، گرمی اور سردی، صحراؤں کی چمکتی ریت میں شیشے کے ذخائر، برف سے ڈھکے پہاڑوں کے لامتناہی سلسلے، پھل فروٹ کی اعلیٰ اقسام، گندم، چاول، گنا، کپاس کے علاوہ بے شمار اجناس۔ غرض یہ کہ قدرت کی ایسی کون سی دولت ہے جو یہاں موجود نہیں؟ لیکن ان وسائل کو درست طور پر کام میں نہیں لایا جاتا۔

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بھی 50کھرب ڈالر کے معدنی ذخائر عطا کیے ہیں، جس میں تھر میں دنیا کے کوئلے کے دوسرے بڑے (185ارب ٹن) ذخائر، ریکوڈک میں تانبے کے پانچویں بڑے 6ارب ٹن (22ارب پاؤنڈ مالیت) ذخائر اور سونے کے چھٹے بڑے 42.5ملین اونس (13ملین پاؤنڈ مالیت) کے ذخائر پائے جاتے ہیں اور صرف ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی مالیت 500ارب ڈالر ہے لیکن ہم بدقسمتی سے ان معدنی وسائل سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔

یو اے ای نے 22ارب ڈالر اور سعودی عرب نے 40ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا جس میں پہلے مرحلے میں 10ارب ڈالر کی سرمایہ کاری شامل ہے۔

نئی پالیسی ریکوڈک منصوبے پر بھی عملدرآمد ہوگا جس سے پہلے مرحلے میں 2025تک 4لاکھ میٹرک ٹن تانبا (3.7ارب ڈالر) اور 4لاکھ اونس سونا (718ملین ڈالر) سالانہ حاصل کیا جائے گا جس سے اُمید کی جاتی ہے کہ ریکوڈک منصوبہ بلوچستان کی ترقی اور پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ تھر میں کوئلے کے ذخائر سعودی عرب اور ایران کے مجموعی 400ارب بیرل تیل کے ذخائر کے مساوی ہیں جن سے 200سال تک سالانہ ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ماضی کی طاقتور بیورو کریسی نے بین الاقوامی آئل کمپنیوں کے دباؤ پر تھر کول سے بجلی پیدا کرنے کی پالیسی نہ بننے دی اور یہ تاثر دیا کہ تھر کے کوئلے میں سلفر اور رطوبت زیادہ ہونے کے باعث بجلی نہیں بنائی جاسکتی لیکن اب تھر کے اسی کوئلے سے نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے 2منصوبے کامیابی سے 1980میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں جو ہماری مجموعی بجلی پیداوار کا تقریباً 18فیصد ہے۔

بہرطورافغانستان کی طرف سے جن مسائل کا پاکستان کو سامنا ہے ان میں دہشت گردانہ حملے، کراس بارڈر دراندازی، سمگلنگ، منشیات کی ترسیل، غیر قانونی آمدورفت جیسے معاملات شامل ہیں۔

یقیناً پاک افغان بارڈر مکمل سیل ہوجانے کے بعد ان مسائل میں کمی آئے گی لیکن ان مسائل کے مکمل خاتمے کے لیے افغانستان حکومت اور اس کے شہریوں کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں آزاد اور خودمختار ممالک ایک دوسرے کے بارڈرز، روایات اور سب سے بڑھ کر سفارتی اخلاقی و آداب کی پاسداری یقینی بناتے ہیں۔

یہ امر یقینی ہے کہ پاک افغان بارڈر مینجمنٹ کے ثمرات جنوبی ایشیاء بالخصوص پاکستان اور افغانستان کے لیے بہت جلد سامنے آئیں گے اور خطے میں امن و خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔