ڈالر سستا، پیٹرول مہنگا: ناقابل فہم منطق

نگران حکومت کی جانب سے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بھاری اضافہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب ڈالرکی قیمت میں کمی ارہی ہے۔

رواں ماہ کے شروع میں چھ ستمبر کو انٹربینک امریکی ڈالر تقریبا 307 روپے کا ہونے کے بعد مسلسل زوال پذیر ہے اور اب اس کی قیمت 297 روپے پرآچکی ہے۔ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے سبب امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ روپیہ مزید مضبوط ہوگا اور ڈالر کی قیمت میں مزید کمی ائے گی۔

تاہم اوگرا کی جانب سے اس بار تیل قیمتوں کے تخمینے کے لیے اختیار کیے گئے طریقہ کار سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کمی بہت معمولی ہے جس کا پیٹرولیم قیمتوں پر زیادہ اثر نہیں ہوا۔

 چار ستمبر سے پندرہ ستمبر کے دوران ڈالر کی قیمت کی اوسط نکالی ہے جو تین سو دو روپے بنتی ہے اسی طرح اوگرا نے اسی مدت کے دوران عالمی منڈی میں پیٹرول کی قیمت کا اوسط تخمینہ لگایا ہے جو 107 ڈالر فی بیرل بنتا ہے۔

عام طور پر اوگرا کی جانب سے پورے 15 دن کی اوسط قیمتوں کا تخمینہ لگایا جاتا ہے گزشتہ ماہ یعنی اگست میں بھی ایسا ہی کیا گیا تھا اور یکم اگست سے 15 اگست تک کی قیمتوں کی اوسط نکالی گئی تھی۔

تقریبا ساڑھے تین ڈالر فی بیرل پریمیم عائد کرنے کے بعد پیٹرول کی فی بیرل قیمت 111 ڈالر ہو گئی جو 300 روپے فی ڈالر کے حساب سے 211 روپے فی لیٹر بنتی ہے۔ اس پر کسٹم ڈیوٹی اور دیگر اخراجات ملا کر پٹرول کی بیس قیمت یا ایکس ریفائن کی قیمت 252 روپے فی لیٹر ظاہر کی گئی۔

حکومت نے اس مرتبہ ان لائن فیڈ ریونیو بھی تین روپے 77 پیسے سے بڑھا کر پانچ روپے 37 پیسے کر دیا ہے اس وجہ سے بھی پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ ائل مارکیٹنگ کمپنیوں اور پیٹرول پمپ مالکان کے منافع میں بھی 41 سے 47 پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے۔

ساٹھ روپے کی حکومتی پیٹرولیم ڈویلپمنٹ اپنی جگہ برقرار رکھتے ہوئے پیٹرول کی حتمی قیمت 331 روپے سے تجاوز کر گئی ہے