کِنگ خان کی واپسی

سرنگ کتنی ہی تاریک ہو، دہانے پر روشنی ہماری منتظر ہوتی ہے۔ جس وقت آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے، تاریکی میں گھرا بولی وڈ سرنگ کے دہانے کی سمت پہلا قدم بڑھا چکا ہوگا۔ اس اہم ترین واقعے کا سبب یش راج کی فلم ’پٹھان‘ ٹھہری۔

ایک روایتی کہانی پر مبنی بھرپور ایکشن، وی ایف ایکس کے تڑکے اور اسٹائل سے سجی یہ فلم یش راج اسپائی یونیورس کی کلیدی کڑی ہے۔ یش راج کی پیش کردہ سابق فلمیں ’ٹائیگر‘ اور ’وار‘ اس فلم سے جڑ کر تھرلر اور ایکشن پر مبنی ایک زنجیر بناتی ہیں۔

چونکہ فلم ’پٹھان‘ میں مرکزی کردار ایک بھارتی ایجنٹ ہے، تو دیش بھگتی پر مبنی ڈائیلاگز اور سازشوں کا تعلق اپنے پڑوسیوں سے جوڑنا پروڈیوسرز کی مجبوری تھی اور شاید ان کے ٹارگٹ آڈیننس کا مطالبہ بھی یہی تھا۔ 

پٹھان 25 جنوری کو ریلیز ہوئی اور ریلیز سے پہلے ہی یہ فلم ناظرین اور ناقدین کی توجہ حاصل کرچکی تھی۔ ایڈوانس بکنگ زوروں پر تھی۔ پہلے دن یہ لوکل مارکیٹ میں 55 کروڑ نیٹ کا ریکارڈ بزنس کرنے میں کامیاب رہی۔ مجموعی طور پر فلم نے ایک دن میں 100 کروڑ سے زائد کا بزنس کیا۔ اب کیونکہ فلم بدھ کے روز ریلیز ہوئی ہے اس لیے ویک اینڈ 5 دنوں پر مشتمل ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ ان 5 روز میں فلم 250 کروڑ نیٹ کا کاروبار کرسکتی ہے۔ لیکن یہ کتنا آگے جاتی ہے اس بابت ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔

فنکار ہوں یا تجزیہ کار، بولی وڈ میں سب ہی اس کامیابی کا جشن منا رہے ہیں۔ اس ردِعمل کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ بولی وڈ نے اس سے خاصی توقعات وابستہ کرلی تھیں، مگر کیا یہ واقعہ اتنا اہم تھا کہ پورا بولی وڈ اس کی مداح میں اکٹھا ہو، ٹوئٹس کرے، بیانات دے اور فلم کو دنیا بھر میں موضوع بحث بنا دے؟

اس کا سادہ سا جواب ہے کہ ’نہیں‘۔ یہ حب الوطنی پر مبنی، ایک پُرلطف مگر محض کمرشل فلم ہے۔ ہندوستان میں ہر سال ہزار سے زائد فلمیں بنتی ہیں، جن میں سپر اسٹارز سے سجی بڑے بجٹ کی فلموں کی کمی نہیں۔ گو گزشتہ چند برسوں میں بولی وڈ بلاک بسٹر دینے میں ناکام رہا، مگر فقط ہٹ فلموں کا قحط اس پذیرائی کی اکلوتی وجہ نہیں۔

’پٹھان‘ کا معاملہ ذرا گہرا اور پرپیچ ہے۔ اس کی جڑیں ہندوستانی سیاست اور ثقافت میں بڑھتے انتہاپسندانہ رویوں تک جاتی ہیں، جس نے بولی وڈ اور اس کی سیکولر سوچ کو گہنا دیا تھا۔ پٹھان کی کامیابی بولی وڈ پر چڑھائی کرنے والے انتہاپسندوں پر بھی کاری ضرب ہے۔

اس مضمون میں ان 4 وجوہات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے، جو پٹھان کو ایک ایکشن، مسالا فلم کے درجے سے اٹھا کر گزشتہ 5 برس کی اہم ترین بولی وڈ فلم بنا دیتی ہیں۔

شاہ رخ خان نے ایک طویل عرصے انڈسٹری پر راج کیا۔ ایسا وقت بھی آیا جب وہ اس دوڑ میں تنہا ہی شامل تھے اور باقی اسٹارز بہت پیچھے رہ گئے تھے، مگر پھر وقت پلٹا۔ ’گجنی‘ کے ساتھ عامر خان نے باکس آفس کے تاج کی سمت جست لگائی اور بعد ازاں ’تھری ایڈیٹس‘، ’پی کے‘ اور ’دنگل‘ جیسی بلاک بسٹر فلمیں دیں۔ اسی طرح سلمان خان نے بھی ایک کے بعد ایک ہٹ فلمیں دیں۔


یہ وہ زمانہ تھا، جب ’رب نے بنا دی جوڑی‘ کے بعد شاہ رخ خان کے قدم ڈگمگانے لگے تھے۔ گو انہوں نے ’چنائی ایکسپریس‘ جیسی آل ٹائم بلاک بسٹر بھی دی، مگر 2014ء کے بعد شاہ رخ کے ستارے گردش میں آگئے۔ کچھ نیا اور انوکھا کرنے کی خواہش نے اس اسٹار کو بے سمتی کا شکار کردیا۔

’زیرو‘ کی ناکامی کے بعد شاہ رخ خان نے ایک بڑا وقفہ لے لیا۔ ادھر کورونا وائرس بھی آن دھمکا۔ سینما گھر بند ہونے لگے۔ یوں ناظرین کو کنگ خان کو دوبارہ اسکرین پر دیکھنےکے لیے 4 برس انتظار کرنا پڑا۔ واپسی کی گھڑی شاہ رخ خان پر ماضی کی مسلسل ناکامیوں کا بھاری دباؤ تھا، مگر یہ دباؤ فقط شاہ رخ خان پر نہیں تھا بلکہ 25 جنوری کی صبح تک بولی وڈ بھی شدید پریشانی کا شکار تھا۔

گزشتہ چند برس شاہ رخ خان ہی نہیں، بولی وڈ کے لیے بھی مشکل رہے۔ ہندی ناظرین کے بدلتے رجحان اور ساؤتھ کے اثرات نے اس کی کمر توڑ رکھی تھی۔ سلمان اور عامر خان کو بھی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اکشے کمار کو خانز کا نعم البدل ٹھہرایا جارہا تھا، مگر 2022ء میں انہوں نے ناکام فلموں کی لائن لگا دی۔

رنویر سنگھ نے بھی 3 فلاپ فلمیں دیں۔ صرف رنبیر کپور کی ’برہماستر‘ اور اجے دیوگن کی ’دریشم ٹو‘ ہی چل سکیں۔ یا پھر ’کشمیر فائلز‘، جسے خود سنجیدہ بھارتیوں نے بھی پروپیگنڈا فلم قرار دیا تھا۔ ادھر ساؤتھ سینما سے آنے والی فلموں کی چاندی ہوگئی۔ کے جی ایف اور آر آر آر تو بلاک بسٹر ٹھہریں، پشپا اور کانتارا جیسی فلموں نے بھی ہندی ناظرین کو گرویدہ بنالیا۔ ایسے میں بولی وڈ کو ایک بلاک بسٹر فلم کی اشد ضرورت تھی، جو سینما مالکان اور ڈسٹری بیوٹرز کے ساتھ ساتھ اپنے ناظرین کا اعتماد بحال کرسکے۔ ابتدائی ٹرینڈز کے مطابق پٹھان وہ فلم ثابت ہوسکتی ہے۔

پٹھان کی متوقع کامیابی اس بائیکاٹ گینگ کے لیے دھچکا ثابت ہوگی جو یہ خیال کیے بیٹھا تھا کہ وہ جب چاہے کسی بھی فلم کو گرا سکتا ہے اور یہ سوچ بے سبب نہیں تھی۔

’بائیکاٹ بولی وڈ‘ سے عامر کی ’لال سنگھ چڈھا‘ سمت متعدد فلموں کو نقصان پہنچا اور اس بار ان کا نشانہ ’پٹھان‘ تھی، جسے محض شاہ رخ خان کی وجہ سے غیر ضروری طور پر نشانہ بنایا گیا۔

یاد رہے کہ اس طرح کے گروہ حکومتی آشیرباد ہی پر احتجاجی راستہ اختیار کرتے ہیں مگر فلم کی ہائپ اور ٹکٹ کھڑکی پر ملنے والے ردِعمل نے بائیکاٹ گینگ کی کم توڑ دی اور نریندر مودی کو شاید بادل ناخواستہ اپنے وزرا اور عہدے داروں کو فلموں پر تبصروں سے دور رہنے کا مشورہ دینا پڑا۔

کئی رجحان ساز فلمیں دینے والے یش راج کو بولی وڈ کا سب سے بڑا اسٹوڈیو تصور کیا جاتا ہے مگر کچھ عرصے سے یہ بدترین جمود کا شکار تھا۔

’پٹھان‘ سے قبل ریلیز ہونے والی یش راج کی فلموں میں اکشے کمار، رنبیر کپور اور رنویر سنگھ جیسے اداکار جلوہ گر ہوئے، مگر ان فلموں کو بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ گویا ’وار‘ کے بعد انہیں ایک ہٹ فلم کی ضرورت تھی اور پٹھان یہ ضرورت پوری کرتی ہے۔

جہاں تک اسپائی یونیورس کا تعلق ہے، ساؤتھ سے شروع ہونے والی باہو بلی، کے جی ایف، پشپا اور وکرم یونیورس کے بعد ایک لازمی قدم تھا، جسے اٹھانے میں مزید تاخیر سم قاتل ہوتی۔

اس سوال کا سادہ سا جواب ’ہاں‘ ہے اور اس پر پاکستانی اعتراض کا پورا حق رکھتے ہیں۔ گو دونوں ممالک گزشتہ 70 برس سے اختلافات اور سرحدی تنازعات کا شکار ہیں مگر پاکستانی فنکاروں کا رویہ بیشتر معاملات میں مثبت رہا۔

اس کے برعکس بھارتی فلم انڈسٹری، بالخصوص بولی وڈ نے فن میں نفرت گوندھنے کے کاروبار کو بڑھاوا دیا۔ ’غدر‘ اور ’بارڈر‘ سمیت درجنوں پروپیگنڈا فلمیں بنائی گئیں۔ البتہ چند فلم سازوں نے اپنے محدودات کے باوجود یہ کوشش ضرور کی کہ ان تلخیوں کو کچھ کم کیا جائے۔ ’ویرزارا‘، ’پی کے‘ اور ’بجرنگی بھائی جان‘ ایسی ہی تازہ مثالیں ہیں۔

گو ’پٹھان‘ ان فلموں جیسی تو نہیں، مگر یہاں سلمان خان کی ٹائیگر سیریز کی طرح درمیانی راستہ نکالنے کی ایک کمزور سی کوشش کی گئی ہے۔ بھارت کے موجودہ انتہاپسندانہ ماحول میں شاید پروڈیوسرز اس سے زیادہ جرأت کا مظاہرہ نہیں کرسکتے تھے۔


آج ’پٹھان‘ کی ریلیز کا دوسرا دن ہے۔ فلم کے بلاک بسٹر ہونے کے امکانات روشن ہیں۔ ایک ایسی بلاک بسٹر، جس کا انتظار یش راج اور شاہ رخ خان ہی کو نہیں بلکہ پورے بولی وڈ کو تھا۔

لگتا ہے، شاہ رخ خان ابھی مزید چند برس راج کرنے والے ہیں۔