سپریم کورٹ کے نئے سربراہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بطور چیف جسٹس اپنے فرائض اس وقت سنبھالے ہیں جب عدالت عظمیٰ میں زیرِالتوا مقدمات کی تعداد 56 ہزار 566 سے زائد ہے اور سپریم کورٹ میں ججز کی تقسیم کا تاثر گہرا ہے۔ پھر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے لےکر جسٹس عمر عطا بندیال تک چیف جسٹسز سے خود ان کے شدید اختلاف بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بیک وقت ایک نہیں بلکہ کئی تعارف ہیں۔ وہ انتہائی سنجیدہ اور سلجھے ہوئے شخص ہیں اور قانون، شریعت، اسلامی تعلیمات پر دسترس رکھتے ہیں اور انہیں تاریخ سے بھی خاصی واقفیت ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے دیرینہ دوست اور تحریک پاکستان کے سرکردہ رہنما قاضی محمد عیسیٰ کے فرزند ہیں۔ وہ ماضی میں ایک اچھے وکیل رہے ہیں اور نڈر جج اور ایک بااصول انسان ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی۔ پھر قانون کی تعلیم لندن سے مکمل کی۔ وہ 1985ء میں بلوچستان ہائیکورٹ کے وکیل بنے پھر 1998ء میں سپریم کورٹ میں بطور وکیل انرول ہوئے۔ بلوچستان ہائیکورٹ اور پھر سندھ ہائیکورٹ میں وہ ایک کامیاب وکیل ثابت ہوئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی انٹری
میں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو میموگیٹ کمیشن کے سربراہ کے طور اس وقت دیکھا جب وہ بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ وہ سپریم کورٹ کے قائم شدہ کمیشن کی دو ساتھی چیف جسٹسز کے ساتھ سربراہی کررہے تھے۔ اس کمیشن میں ان کے ساتھ سندھ ہائیکورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس مشیر عالم اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس اقبال حمیدالرحمٰن شامل تھے۔ یہ کمیشن اس وقت بنا جب ایبٹ آباد میں امریکی فوج عالمی مطلوب دہشتگرد اسامہ بن لادن کو ایک گھر میں مار کر اس کی لاش اپنے ساتھ لے گئی تھی۔
اس واقعے کے بعد ریاست کی خودمختاری پر سوالات اٹھنے کے ساتھ ساتھ بڑی ہزیمت کا سامنا تھا۔ ایسے ماحول میں یہ خبر عام ہوئی کہ صدر زرداری نے تب کے امریکی سفیر حسین حقانی کے ذریعے امریکی انتظامیہ سے مدد طلب کی کہ پاکستان میں ممکنہ طور پر لگنے والے مارشل لا کو روکیں۔ یہ اپنی نوعیت کا عجیب مقدمہ تھا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے سامنے میاں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر بمعہ اپنی پوری جماعت کھڑے ہوگئے تھے۔
میاں صاحب اور ان کے اس وقت کے ساتھیوں کی تمام درخواستوں کا لب لباب یہ تھا کہ مارشل لا کے خطرے کے باعث امریکا سے مدد طلب کرنا ملک سے غداری ہے اور اس میں سب سے بڑی سورس خود امریکی شہری منصور اعجاز تھے۔ یعنی مقدمہ یہ تھا کہ امریکی شہری کے بیان پر پاکستانی شہریوں اور سیاستدانوں کو سبق سکھانا ہے۔ اس سب میں نواز شریف خوب استعمال ہوئے جس کا انہیں کافی بعد میں احساس تب ہوا جب ان کے خلاف میمو گیٹ کمیشن جیسا ایک اور کیس ڈان لیکس سامنے آیا۔
میاں نواز شریف، جنرل پاشا اور دیگر حضرات اس وقت کی حکومت کے خلاف گواہ بن کر عدالت کے سامنے حلفیہ بیان جمع کرواچکے تھے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری میں ایسے حلفی بیانات کو نظرانداز کرنے کی جرات ہی نہیں تھی۔ خیر وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ایک زبردست انٹری تھی۔ تین صوبائی چیف جسٹسز کا کمیشن امریکی شہری منصور اعجاز کے دیے گئے بیان پر پاکستان میں بڑی عدالتی کارروائی میں مشغول ہوگیا۔ کئی دنوں کے بعد کمیشن نے امریکی حلف یافتہ شہری کے بیان کی بنیاد پر میموگیٹ کا ذمہ دار حسین حقانی کو قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ نے پہلے کمیشن بنایا، اس کمیشن نے سفارشات دیں، عدالت عظمیٰ نے ان سفارشات پر حکم صادر فرمایا لیکن نتیجہ صفر بٹا صفر رہا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر آج تک عمل نہ ہونے سے ہی لگتا ہے کہ وہ کمیشن اور اس کی کارروائیاں اس وقت کی ضرورت تھیں۔ دراصل میمو گیٹ کمیشن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے پہلا ٹیسٹ کیس تھا۔
اب یہ فیصلہ تاریخ نے کرنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بطور منصف، انصاف کر پائے یا نہیں البتہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آبزرویشنز، ان کے ریمارکس، چبھتے سوالات، انکوائری کا نرالا انداز سب کچھ نیا نیا تھا۔ یہ وہ پہلا مقدمہ تھا جس میں جسٹس قاضی فائز کافی مقبول ہوئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس ہیں۔ اگر حالات نے ان کا ساتھ دیا اور پھر سے مشکلات پیدا نہ ہوئیں تو وہ 25 اکتوبر 2024ء تک یعنی تقریباً 13 ماہ چیف جسٹس کے عہدے پر براجمان رہیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی چیف جسٹس کے طور پر نامزدگی 3 ماہ پہلے ہوچکی تھی۔ 21 جون 2023ء کو صدر مملکت نے اپنی ایک ٹوئٹ کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کردیا تھا۔ سرکاری اعلامیہ بھی جاری ہوا جس میں یہ اعلان ہوا کہ صدر مملکت نے آئین کی شق 175 اور 177 کے تحت سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو بطور چیف جسٹس نامزد کردیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 17 ستمبر 2023ء کو اپنے عہدے کا حلف لیں گے۔
صدر مملکت نے اسی جج کو چیف جسٹس نامزد کیا جس نے کچھ عرصہ پہلے اپنے دستخط سے ان کے خلاف جوڈیشل کونسل میں ایسا ریفرنس بھیجا جسے سپریم کورٹ نے جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔ ریفرنس بھیجنے والی حکمران جماعت پہلے تو اس ریفرنس کا دفاع کرتی رہی لیکن آخر میں جماعت کے سربراہ نے یہ فرمایا کہ ہمیں اس ریفرنس میں ایک پوسٹ مین کی طرح استعمال کیا گیا۔ یہ سچ ہے کہ تین برس پہلے جب اس ریفرنس کی کہانی ہر زبان پر تھی اور ایک منصف انصاف کے لیے اپنی ہی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے تھے تب میڈیا سمیت تمام لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس بننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
بطور چیف جسٹس ہائیکورٹ تقرری
2007ء کی ایمرجنسی پلس کے اثرات ختم کرنے والے سندھ ہائیکورٹ بار کیس کے فیصلے کے نتیجے میں جہاں 100 سے زائد پی سی او جج فارغ ہوئے وہیں بلوچستان ہائیکورٹ ججوں سے مکمل طور پر خالی ہوگئی۔ یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سندھ ہائیکورٹ کا جج بنانا چاہتے تھے لیکن قاضی فائز عیسیٰ نے یہ کہہ کر اس پیشکش کو مسترد کردیا کہ یہ درست ہے کہ میری رہائش کراچی میں ہے اور زیادہ تر پریکٹس سندھ ہائیکورٹ میں ہے لیکن میرا ڈومیسائل بلوچستان کا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ پر مجھ سے زیادہ حق سندھ کا ڈومیسائل رکھنے والوں کا ہے۔
سپریم کورٹ سے پی سی او کالعدم اور پی سی او زدہ جج فارغ ہوگئے تو بلوچستان کی خالی ہائیکورٹ کو ججوں کے ساتھ اچھی ساکھ کے حامل چیف جسٹس کی ضرورت تھی۔ اس صورتحال میں صدرِ پاکستان نے چیف جسٹس کی نامزدگی کو نظر میں رکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو 5 اگست 2009ء کو بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کردیا۔ 5 سال بعد 2014ء میں انہیں ترقی دے کر سپریم کورٹ کا جج مقرر کردیا گیا۔
قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے
19 اگست 2015ء کو سپریم کورٹ نے ایک اہم مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے پاکستان میں تلور کے شکار پر پابندی عائد کردی۔ یہ بینچ تب کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں قائم تھا جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس دوست محمد بھی ممبر کی حیثیت سے موجود تھے۔ تلور کے شکار پر پابندی کو وفاق نے عالمی برادری کے ساتھ تعلقات سے منسلک کردیا تھا۔ اس سماعت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آبزرویشن تھی کی ریاست شکار کی اجازت دے کر نہ صرف پاکستان کے آئین بلکہ عالمی قوانین اور کنوینشنز کی بھی خلاف ورزی کررہی ہے۔
یہ ایسا مقدمہ تھا جس میں صوبائی حکومتیں 18ویں ترمیم کے تحت ملی تھوڑی بہت خودمختاری کو بھی سرینڈر کرنے کو تیار تھیں۔ وہ یوں کہ شکار کی اجازت صوبے کا معاملہ تھا لیکن صوبے وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد کی پابندی کا موقف اختیار کررہے تھے۔ مقدمہ چلنے کے بعد عدالت کا فیصلہ آگیا۔ سپریم کورٹ نے پورے ملک میں تلور کے شکار پر پابندی عائد کردی۔ عرب شکاریوں اور شہزادوں کے جاری کردہ پرمٹ و اجازت نامے مسترد کر دیے گئے۔
اس مقدمے میں سب سے اہم کردار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تھا۔ یہ وہ مقدمہ تھا جس میں حکومت پاکستان نے مؤقف اختیار کیا کہ تلور پر پابندی سے پاکستان کے خلیجی و دیگر ممالک سے تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ خارجہ پالیسی کا انحصار تلور جیسے معصوم پرندے کی حیات اور موت پر ہے۔ خیر اس فیصلے کے بعد سرکار نے نظرثانی اپیل دائر کی اور وزارت خارجہ نے اپنی خارجہ پالیسی تلور کی قربانی پر بچا لی۔
اب چیف جسٹس تبدیل ہوچکے تھے اس بار چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ اور اکثریتی ججوں نے پاکستان میں غیر ملکی مہمانوں کو تلور کا شکار کرنے کی اجازت دے کر پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات خراب ہونے سے بچا لیے لیکن بینچ میں موجود جسٹس قاضی فائز اپنے پرانے فیصلے پر برقرار رہے اور انہوں نے پھر سے لکھا کہ یہ شکار قانون کے خلاف پہلے بھی تھا اب بھی ہے۔
2015ء کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ایک اور بڑی ذمہ داری اس وقت ڈال دی جب کوئٹہ میں وکلا کو دہشتگردوں نے نشانہ بنایا۔ 8 اگست 2016ء کو ایک وکیل پر حملے کے بعد جب تمام وکلا اسپتال پہنچے تو خودکش بمبار نے وکلا پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں تقریباً 60 وکلا شہید ہوگئے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اس واقعے پر ازخود نوٹس لیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل ایک رکنی عدالتی انکوائری کمیشن قائم کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دل و جان سے اس معاملے کی انکوائری کرکےایک جامع رپورٹ تیار کی۔ یہ رپورٹ حکومتِ وقت، ریاستی پالیسیوں اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف ایک چارج شیٹ تھی جس میں تمام پہلوں کا جائزہ لیا گیا تھا۔ کمیشن نے اس وقت کے وزیر داخلہ، وزیراعلیٰ بلوچستان، آئی جی پولیس و دیگر اداروں کے سربراہان کے بیانات لیے جنہیں رپورٹ کا حصہ بنایا گیا۔ رپورٹ میں تمام واقعات کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیا گیا۔ یہ ایک ایسی رپورٹ تھی جسے چھپانا حکومت کی مجبوری بن گئی اس لیے حکومت نے سپریم کورٹ سے استدعا کی یہ رپورٹ منظر عام پر نہ لائی جائے۔ البتہ سپریم کورٹ نے حکومتی استدعا مسترد کرکے رپورٹ کو پبلک کردیا۔
کوئٹہ کمیشن کی 110 صفحات کی رپورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہاں تک لکھ دیا کہ وفاقی اور صوبائی وزیرداخلہ، حتٰی کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھی اس واقعے سے متعلق غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر کوئی عمل نہیں ہورہا۔ وزارت داخلہ کے افسر، وزیروں کی خوشامدی کے سوا کوئی کام نہیں کررہے۔ اسی رپورٹ میں نیکٹا کی نااہلی، وزارت داخلہ کی کاہلی اور صوبائی حکومت کی لاپروائی کی داستانیں رقم ہیں۔ ایسی شفاف رپورٹ کوئی جرات مند اور نڈر جج ہی دے سکتا ہے۔ افسوس کی بات یہ کہ دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے سے رپورٹ میں موجود سفارشات میں سے کسی ایک پر بھی عمل درآمد نہ ہوسکا۔
سپریم کورٹ نے آئین کی 21ویں ترمیم جو کہ ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے تھی اس کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں فل کورٹ یعنی 17 ججوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔ اس سماعت کے بعد سب ججوں نے اپنی اپنی رائے دی، ان میں سے جن 6 ججوں نے فوجی عدالتوں کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیا تھا جن میں سے ایک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی تھے وہ سپریم کورٹ کے جونیئر جج ہونے کے باوجود اکثریت کے ساتھ نہیں تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ پارلیمنٹ کے پاس بھی فوجی عدالتیں قائم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ فل کورٹ نے اگست 2015ء کے پہلے ہفتے میں یہ فیصلہ جاری کیا تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 6 فروری 2019ء کو تحریکِ لبیک پاکستان کے 2017ء والے دھرنا کیس کا فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ 22 نومبر 2018ء کو محفوظ کیا گیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس دھرنے کے فیصلے میں لکھا کہ جو شخص نفرت پھیلائے، ایسے فتوے دیے جس سے کسی دوسرے شخص کو نقصان ہو یا مشکل پیدا ہو، اس کے خلاف قانون کے عین مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ اس دھرنے والوں کے خلاف مروج قوانین کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔
عدالت نے کہا کہ تمام سیکیورٹی ایجنسیوں کو اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ ملک کا آئین افواجِ پاکستان کو کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتا، کسی بھی جماعت، گروہ یا افراد کی حمایت سے سختی سے منع کرتا ہے۔ اس لیے وزارت دفاع کے ذریعے فوج کے سربراہ، نیوی اور ایئر فورس کے سربراہ کو یہ ہدایات کی جاتی ہیں کہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے اہلکاروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ فیصلے کا یہ پیراگراف حکومت اور دھرنے کی معاونین پر بجلی بن کر گرا اور اسی دن فیصلہ ہوچکا تھا کہ جسٹس قاضی فائز قابل قبول نہیں۔
اس مقدمے کا ایک عجیب پہلو یہ بھی تھا کہ دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم کو اپنے کیرئیر میں کوئی تکلیف نہیں ہوئی وہ باعزت انداز سے ریٹائرڈ ہوئے لیکن اگر گھیرا تنگ کیا گیا تو صرف جسٹس قاضی فائز کے گرد۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی، جسٹس ناصرالملک، جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس جواد ایس خواجہ کے ساتھ اچھے ورکنگ تعلقات تھے لیکن جب یہ اعلیٰ مسند جسٹس ثاقب نثار کے حوالے ہوئی تو ان تعلقات میں سرد مہری اور پھر اختلافات نظر آنا شروع ہوئے۔ جسٹس ثاقب نثار کیونکہ خود کو مکمل فعال جج اور ادارے کا خودمختار سربراہ سمجھتے تھے تو وہ کسی جج سے اختلاف رائے رکھنے کی امید بھی نہیں رکھتے تھے۔ جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس قاضی فائز کے درمیان اختلافات کی خبریں کھل کر تب سامنے آئیں جب پشاور رجسٹری میں چیف جسٹس صاحب جسٹس قاضی فائز کی آبزرویشن پر برا مان کر بینچ چھوڑ کر اٹھ گئے اور اگلے دن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نکال کر نیا بینچ تشکیل دے دیا۔
اصل میں وہ معاملہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت ایک مقدمے کا تھا جو سپریم کورٹ میں زیرِالتوا تھا۔ یہ مقدمہ عوامی مفادات کے آرٹیکل 184 (3)کے دائرے میں آتا بھی ہے یا نہیں یہ وہ سوال تھا جو جسٹس قاضی فائز نے اپنے چیف جسٹس ثاقب نثار کی موجودگی میں پوچھنے کی جرات کی۔ یہ سوال چیف جسٹس کو اس لیے بھی ناگوار گزرا کیونکہ بینچ کے جج نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ پہلے خود عدالت عظمیٰ کو بھی اس طرح کے مقدمات میں مطمئن ہونا چاہیے کہ وہ جس مقدمے کی سماعت کررہے ہیں وہ عوامی مفادات یا بنیادی حقوق کے اصل دائرہ اختیار کے اندر ہیں یا نہیں۔
اب چیف جسٹس جس مقدمے کا نوٹس لے کر اسے سنے اور کوئی جونیئر جج اس پر ایسا سوال اٹھائے تو جسٹس ثاقب نثار جیسا جج تو برا مانے گا۔ اس بات پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے مقدمے کو وہاں چھوڑا اور بعد میں پتا چلا کہ جسٹس قاضی فائز اس مقدمے سے ہی باہر ہوچکے ہیں۔
چیف جسٹس صاحبان سے ان کے ورکنگ ریلیشن کا حال یہ تھا کہ کئی مواقع پر ان کو بینچ سے الگ کردیا جاتا یا ان کے عدالتی آرڈر کو ایک انتظامی نوٹیفکیشن کے ذریعے ختم کردیا جاتا۔ دو تین اسی قسم کے واقعات مجھے یاد آرہے ہیں۔
ان کے خلاف ریفرنس کے بعد کی بات ہے، وزیراعظم عمران خان کی طرف سے سینیٹرز کو ترقیاتی فنڈز دینے کا اعلان ہوا تو ایک مقدمے میں جسٹس قاضی فائز نے اس کا نوٹس لےکر چیف جسٹس کو الگ بینچ بنانے کی سفارش کردی اب کی بار چیف جسٹس گلزار احمد تھے انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بینچ سے الگ کرکے لارجر بینچ بنا دیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر عمران خان یا حکومتی مقدمات سننے پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی جس پر بار کونسل اور سینئیر وکلا کی طرف سے شدید رد عمل آیا۔
اس پر جسٹس قاضی فائز نے چیف جسٹس کو ایک خط لکھا اس کے بعد اسی مقدمے میں ایک طویل اختلافی نوٹ بھی لکھا تھا۔ جو خط لکھا گیا اس میں بینچ کی تشکیل کے حوالے سے چیف جسٹس کے اختیارات اور ان اختیارات کے طریقہ استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اختلافی نوٹ میں واضع کیا کہ چیف جسٹس نے ایک نان ایشو کو ایشو بنا دیا ہے ریکارڈ پر ایسی کوئی چیز ہی موجود نہیں۔ چیف جسٹس نے جس انداز میں نیا بینچ تشکیل دیا ہے وہ دو ججوں پر عدم اعتماد کا اظہار ہے اور اس سے ہماری بے توقیری ہوئی ہے۔ چیف جسٹس کا بینچ غیر واضح اور امتیازی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے پریس ایسوسی ایشن کی صحافیوں کو ہراساں کرنے کی درخواست پر نوٹس لےکر آئی جی پولیس اور ڈی جی ایف آئی اے کو طلب کیا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ ازخود نوٹس فقط چیف جسٹس کی صوابدید ہے، کوئی جج اس حوالے سے صرف سفارش کرسکتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز کا مؤقف تھا کہ ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کا ہے۔ اس کا جج بھی اتنا ہی بااختیار ہوتا ہے جتنا کہ چیف جسٹس۔ ایک مقدمے میں تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا عدالتی آرڈر رجسٹرار کے جاری کردہ نوٹیفکیشن سے معطل کردیا گیا۔ یہ عدالتی تاریخ کا انوکھا اور پہلا واقعہ تھا جہاں جج کا فیصلہ رجسٹرار سے معطل کروایا گیا تھا۔
رجسٹرار کے دستخط سے جاری ہونے والا سرکلر
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس
یہاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس کا ذکر کرنا ضروری ہے جس کی بنیاد ایک خبر کا تراشہ تھا جوکہ ایک مقامی رپورٹر نے اسلام آباد کے مقامی اخبار میں دی تھی۔ وہ سب کیا دھرا ایسٹ ریکوری سیل کا تھا جس کے سربراہ بھی ایک خودساختہ جلاوطن وکیل بیرسٹر شہزاد اکبر تھے۔ جسٹس قاضی فائز اور ان کے خاندان پر الزام لگایا گیا کہ ان کے پاس ملک سے باہر جائیداد ہے جو انہوں نے ظاہر نہیں کیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم، شہزاد اکبر، اس وقت کے اٹارنی جنرل سب کے سب الزامات پر الزامات دھرتے رہے یہاں تک کہ فروغ نسیم نے تو جج صاحب پر منی لانڈرنگ کا الزام تک لگادیا۔
اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے جو فیصلہ دیا وہ بھی منصفی کے اعلیٰ معیار کا فیصلہ تھا کہ ریفرنس خارج کردیا البتہ جج اور اس کے خاندان کے خلاف ایف بی آر کو کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی۔ فیصلے کا یہ تضاد یا ریفرنس کا اصل بھید بعد میں اس وقت کھلا جب کچھ ججوں نے آنکھیں کھولیں اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی اپیل منظور ہوگئی۔
یہ ہمت جسٹس قاضی کی تھی کہ جو قانون کے تمام داؤ پیچ کھیل کر خود کے لیے انصاف لینے میں کامیاب ہوئے ورنہ ریفرنس بنانے اور بھیجنے والے بڑے بااثر تھے جنہوں نے کھڑے کھڑے جسٹس شوکت صدیقی کو دو پیشیوں میں گھر بھیج دیا۔
سینیارٹی پر نو کمپرومائز
نئے چیف جسٹس کے فیصلوں کی بات تو ہوچکی، ان کے خلاف ریفرنس اور اس ریفرنس کے انجام کا ذکر بھی ہوچکا۔ سینیئر ترین جج کی حیثیت سے وہ سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کے بھی ممبر تھے لیکن دونوں فورمز پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فورم کے سربراہ سے اختلاف ہی رکھا۔ ایک معزز جج کے خلاف جوڈیشل کونسل میں شکایت آئی تو جسٹس قاضی فائز نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر اس شکایت کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا جبکہ ججوں کے تقرر کے سب سے بڑے فورم پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ججز کے تقرر میں سینیارٹی کے اصول پر کاربند ہونے کا مطالبہ کیا۔
جوڈیشل کمیشن کے کئی اجلاس جسٹس قاضی فائز کے سینیارٹی کے اصول پر سودے بازی نہ کرنے کے وجہ سے مؤخر ہوئے اور کئی نامزدگیاں مسترد ہوئیں۔ موجودہ چیف جسٹس کا مؤقف یہ بھی ہے کہ ملک کی ہر وحدت کی زبان کا جج سپریم کورٹ میں ہونا چاہیے لیکن اس مؤقف کو کبھی پذیرائی نہیں ملی اس لیے چھوٹے صوبے سندھ اور بلوچستان کو اب بھی شکایت ہے کہ ان کی زبان بولنے والوں کے لیے سپریم کورٹ میں کوئی جگہ نہیں۔
سپریم کورٹ میں سینیارٹی کے اصول کو نظرانداز کرکے جتنے بھی جج بھرتی ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جوڈیشل کونسل میں سب کے خلاف ووٹ دیا ہوا ہے۔ اس حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جوڈیشل کونسل کے ممبران کو ایک خط بھی لکھا کہ پشاور ہائیکورٹ کی خاتون چیف جسٹس مسرت ہلالی اور سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ کو سپریم کورٹ میں مقرر کرنے کے لیے اجلاس بلایا جائے۔
بات جب خطوط کی آتی ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وہ واحد جج ہیں جنہوں نے عدالتی تاریخ میں سب سے زیادہ خطوط لکھے۔ انہوں نے مختلف مواقع پر صدر مملکت سے لے کر چیف جسٹس، ساتھی ججز اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ کر اپنا واضح مؤقف سامنے رکھا ہے۔
جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدر نے جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیجا تو کونسل تک رسائی نہ ہونے یا ان سے جواب نہ ملنے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت کو خط لکھ دیا جوکہ پورے میڈیا پر نشر و شائع ہوگیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت کو خط میں لکھا کہ انہیں میڈیا سے معلوم ہوا ہے کہ صدر پاکستان نے میرے خلاف کوئی ریفرنس جوڈیشل کونسل کو بھیجا ہے جس کا انہیں کہیں سے علم نہیں ہوا۔ کیا صدر مملکت اس کی تصدیق کریں گے کہ انہوں نے ایسا کوئی ریفرنس بھیجا ہے؟ ان کو شکایت تھی کہ ان کے خلاف ریفرنس کے حوالے سے سامنے آنے والی یکطرفہ خبروں سے ان کی کردار کشی ہورہی ہے اور ان کے شفاف ٹرائل کا حق بھی متاثر ہورہا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری کے حوالے سے چیف جسٹس کو خط لکھا پھر جونیئر ججز کو ترقی دےکر سپریم کورٹ میں تقرری کے خلاف بھی خط لکھے۔ اس کے لیے ایک خط جلد بازی میں جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلانے پر لکھا گیا جس میں درج تھا کہ جب سپریم کورٹ میں موسم گرما کی تعطیلات ہیں تو اس وقت جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلانے کی کیا جلدی ہے؟ اور یہ اجلاس تب بلایا جا رہا ہے جب سینیئر ترین جج ملک سے باہر ہیں۔
جسٹس قاضی فائز نے صرف جسٹس عمر عطا بندیال کو ہی نہیں بلکہ جسٹس گلزار کو بھی خط لکھا۔ چیف جسٹس گلزار احمد کو پہلا خط کورونا وبا کے دوران لکھا گیا، اس خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کو لکھا کہ جب تک کورونا وبا کا خاتمہ نہیں ہوتا سپریم کورٹ کی مسجد میں باجماعت نماز پر پابندی لگادی جائے۔ اس خط میں قرآن پاک کی مختلف صورتوں اور آیات کا حوالہ دیا گیا۔ یہ اپریل 2020ء کا خط ہے جسے میڈیا میں شائع بھی کروایا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ سے سرخرو ہوئے اور اب جب وہ سپریم کورٹ کے سربراہ بن رہے ہیں تو دیکھنا یہ ہوگا کہ ان کی سربراہی میں انصاف کی سب سے بڑی عدالت کا آنے والے دنوں میں کیا کردار رہتا ہے۔