حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کا دفاع کرنے کی ذمہ داری سے آزاد ہونے والے خواجہ آصف اب اپنی جماعت کے حوالے سے بھی بات چیت کررہے ہیں۔ اپنے حالیہ انٹرویو میں انہوں نے اتفاق کیا کہ مسلم لیگ (نواز) کی اعلیٰ قیادت یعنیٰ شریف برادران کو پاکستان واپس آنا چاہیے۔
پہلی بات یہ کہ جب ہمارے سیاست دان وزارتوں سے آزاد ہوتے ہیں تو وہ عام سیاست سے زیادہ قریب ہوجاتے ہیں جبکہ وزارت کے قلم دان کے تحت انہیں کابینہ کے اجلاسوں سے وقت نہیں مل پاتا۔
شاید ان کے دیگر پارٹی رہنما بھی ان کے اس مؤقف سے اتفاق کریں۔ جہاں ایک طرف مسلم لیگ (ن) کی سیاست کچھ بے یقینی کا شکار نظر آتی ہے تو وہیں دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور جمعیتِ علمائے اسلام (ف) نے کم سیاسی مواقع کے باوجود اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔ البتہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی سیاسی سرگرمیاں محدود ہیں کیونکہ وہ اس وقت اپنی بقا کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ مسلم لیگ (ن) بھی فعال نظر نہیں آرہی اور اس کی وجوہات مختلف ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے پاس بطور انتخابی نعرہ ماضی کی صرف ایک ہی چیز ہے یعنی وزیراعظم کے طور پر نواز شریف کا 2013ء-2018ء کا دور جس میں ان کے مطابق ملک نے ترقی کی۔ اس یہ واضح ہوتا ہے کہ جماعت گزشتہ 16 ماہ کا بوجھ اپنے سر نہیں لینا چاہتی، لیکن لوگوں کو اس بات پر قائل کرنا ناممکن سا محسوس ہوتا ہے۔
اگر یہی وہ واحد چیلنج ہے جس کا سامنا مسلم لیگ (ن) کررہی ہے تو اس کا بھی حل نکالا جاسکتا ہے۔ حل نکالنے کے بجائے جماعت مزید الجھاؤ کا شکار ہورہی ہے۔ نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے پارٹی کے دعووں اور اعلانات کے باوجود وضاحت اور یقین دہانی کروانے کی ضرورت ہے۔ اور اگر وہ واپس آجاتے ہیں تو ان کے مستقبل کے حوالے سے کوئی رائے قائم کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔
ایک طرف جہاں ان کی انتخابی مہم اگلے انتخابات میں پارٹی کی اچھی کارکردگی کے لیے ضروری ہے وہیں دوسری جانب کچھ حلقے پراعتماد نظر آرہے ہیں کہ وہ ایک بار پھر وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ (پی ٹی آئی کے حوالے سے ہونے والے دعووں کی طرح) یہ سرگوشیاں بھی جاری ہیں کہ نواز شریف کے پاس مقبولیت تو ہے لیکن شاید ان کے پاس قبولیت نہیں ہے۔ اگر ان قیاس آرائیوں میں سچائی ہے تو اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بڑے میاں صاحب تو نہیں لیکن چھوٹے میاں صاحب کی ایک بار پھر وزیراعظم ہاؤس میں واپسی ہوسکتی ہے۔
عام لوگوں کے ساتھ ساتھ شریف خاندان نے بھی یہ افواہیں سنی ہیں جبکہ جاوید لطیف اور آصف کرمانی جیسے رہنما دعویٰ کرتے اور زور دیتے نظر آتے ہیں کہ پارٹی کے سربراہ اور وزیراعظم صرف نواز شریف ہوں گے۔ تاہم ایک بات جو سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ اگر شہباز شریف وزیراعظم بنیں گے تو نواز شریف صرف الیکشن جیتنے اور حکومت ان کے حوالے کرنے کے لیے پاکستان واپس کیوں آئیں گے؟
ان تمام معاملات کے ساتھ انتخابات میں کامیابی کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ تمام زاویوں سے دیکھا جائے تو نواز شریف کی موجودگی کے باوجود مسلم لیگ (ن) پنجاب کے انتخابات میں حکومت بنانے کے لیے مضبوط پوزیشن میں نہیں ہے اور انتخابات جیتنے کے لیے وہ ’مدد‘ کی امید میں ہے۔ لیکن اگر انتخابات ہوجاتے ہیں تو اس مدد کے ذریعے ہمیں مخلوط حکومت بھی مل سکتی ہے۔ تو ایک بار پھر یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر بڑے میاں صاحب کیوں اس معاملے میں ملوث ہوں؟ وہ پہلے ہی خود کو اپنی اس پارٹی سے الگ سمجھتے ہیں جوکہ 2022ء میں اتحادی حکومت کا حصہ بنی تھی۔
تیسرا چیلنج یہ ہے کہ پارٹی خود ان لوگوں کے درمیان تقسیم کا شکار ہے جو شہباز شریف کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ’مدد‘ ان کے ساتھ رہے اور وہ لوگ جن کا یقین ہے کہ صرف نواز شریف ہی پارٹی اور حکومتی معاملات چلاسکتے ہیں۔ پارٹی میں تقسیم بڑھنے کی صورت میں خاندان میں کیسی خلیج پیدا ہوگی اس بارے میں اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں۔
لیکن مسلم لیگ (ن) کی پریشانیاں خاندانی مسائل سے بڑھ کر ہیں، اور اس چوتھے چیلنج کے لیے ہمیں ماضی قریب پر دوبارہ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے قیام سے لےکر اس کے اب تک کے سفر میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ دائیں بازو کی یہ جماعت پنجاب میں پی پی پی کے تسلط کو چیلنج کرنے کے لیے ابھری تھی، اس نے 2008ء کے بعد اپنے متعلق خیالات تبدیل کرنے کی کافی کوشش کی۔ یہ واضح ہے کہ مسلم لیگ (ن) 1997ء کے اپنے دورِ اقتدار کو پسِ پشت ڈالنا چاہتی ہے جس میں ان کی عدلیہ اور میڈیا کے ساتھ متعدد مواقع پرجھڑپ ہوئی اور انہوں نے امیرالمومنین قانون بھی نافذ کرنے کی کوشش کی۔
2009ء میں عدلیہ کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ اور معاشرے کے لبرل طبقوں (بالخصوص لاہور میں) کو راغب کرنا ان کوششوں کا آغاز تھا۔ 2013ء میں ان کوششوں میں تیزی آنا شروع ہوئی، پڑھے لکھے لوگوں کو پارٹی کے چہرے کے طور پر سامنے لایا گیا جبکہ روایتی سیاستدانوں کو بھی قریب رکھا گیا۔ جیسے ہی مریم نواز نے پارٹی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا تو اس سے مزید خواتین کو سامنے آنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ پارٹی کو نئی شناخت دینے کے لیے بہت سے معنیٰ خیز اقدمات کیے گئے۔
بطور وزیراعظم نواز شریف نے ہولی کا تہوار بھی منایا اور شرمین عبید چنائے کی فلم جو غیرت کے نام پر قتل پر بنائی گئی تھی، اسے وزیراعظم ہاؤس میں بھی چلایا۔ اس طرح کی کوششوں سے انہوں نے بہت سے ایسے لوگوں کو اپنی جانب راغب کیا جوکہ صرف پی پی پی کو ترقی پسند جماعت کے طور پر دیکھتے تھے۔
اور پھر اہم موڑ تب آیا جب نواز شریف کو برطرف کرکے گھر بھیج دیا گیا۔ 1999ء کی طرح یہ پارٹی کے لیے مشکل وقت تھا جس میں ان کے وفادار رہنماؤں کو الزامات، تحقیقات اور قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ دیگر وجوہات کی بنا پر بھی حزبِ اختلاف کے طور پر مسلم لیگ (ن) پر مشکل وقت گزرا۔
یہی سب کچھ تحریکِ عدم اعتماد اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت کی بنیاد بنا۔ لیکن اس مختصر عرصے کی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کی ساکھ بہتر کرنے کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔
گزشتہ 16 ماہ کے اقدامات کے بعد اب انسانی حقوق، آزادیِ اظہار اور دیگر لبرل اقدار سے متعلق پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔
یہ معاملہ اس وقت نظروں میں آیا جب وزیر اطلاعات نے عمران ریاض کی گمشدگی سے متعلق سوال کے جواب میں یہ دلیل پیش کہ وہ صحافی نہیں ہیں اور جب وزیر داخلہ نے گرفتاریوں اور مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کو درست قرار دیا۔ اس کے بعد پارلیمنٹ میں ایک کے بعد ایک قانون سازی کا سلسلہ شروع ہوا۔
لیکن ساکھ میں بہتری لانے (جو بعد میں تباہی ثابت ہوئی) کی کوششوں کو ایک اور جہت سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ محمد زبیر جیسے پڑھے لکھے رہنماؤں کو نظرانداز کرنا اور اسحٰق ڈار کا مفتاح اسمعٰیل کی جگہ لینا وہ اقدامات تھے جن سے پارٹی کے خاندان کے گرد گھومنے کے تاثر کو تقویت ملی، یہ وہ تاثر تھا جس سے مسلم لیگ (ن) نے پہلے خود کو دور کر لیا تھا۔
ایسے مسلم لیگ (ن) کے کئی حامی مایوس ہوئے جو 2008ء کے بعد پارٹی سے قریب ہوئے تھے۔ درحقیقت ان گزشتہ 16 مہینوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا چہرہ شاہد خاقان عباسی یا نسبتاً چھوٹی عمر کے پڑھے لکھے لوگوں کے بجائے شریف خاندان اور اس کے ساتھ رانا ثنااللہ اور جاوید لطیف جیسے لوگ ہیں۔
بالآخر ایک ایسے ملک میں جہاں نوجوان تبدیلی کی تلاش میں ہیں وہاں پارٹی کے اس قدم کا سامنا کرنا بہت مشکل ہوگا۔ خاص طور پر شریف برادران کے خیال میں پارٹی اور خاندان کے چیلنجز کا جواب ایک ہی ہے۔