ٹیم گرین: ورلڈ کپ کی تیاریاں

کیا پاکستانی اسپنرز وکٹیں لینا بھول گئے ہیں اور پاکستانی کپتان فاسٹ باؤلرز کا استعمال کرنا بھی بھول چکے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو کرکٹ شائقین ایک دوسرے سے اُور بالخصوص سوشل میڈیا پر پوچھا جا رہا ہے۔ ایسے میں مڈل اوورز میں کسی بھی بیٹسمین کو روکنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ ایشیا کپ میں نیپال کے علاوہ ہر میچ میں پاکستانی باؤلرز درمیانے اوورز میں وکٹ حاصل کرنے میں ناکام ہی نظر آئے۔ یہی پاکستان کے لیے ورلڈکپ میں بہت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔

خبریں یہی ہیں کہ شاید نسیم شاہ اپنی فٹنس کے باعث ورلڈکپ کے لیے دستیاب نہیں ہوں گے تو ایسے میں پہلے دس اوورز کے دوران وکٹ حاصل کرنا بھی مسئلہ بن سکتا ہے۔ شاہین آفریدی وائٹ بال کرکٹ کے پہلے اوور میں اکثر وکٹ حاصل کر جاتے ہیں لیکن اگر یہ وکٹ نہ مل پائے تو اس کا ان پر کافی منفی اثر ہونے لگا ہے۔ شاہین وکٹ کے حصول کے لیے کوششیں شدید کر دیتے ہیں اور ایسے میں بیٹسمین بھرپور رنز بٹور سکتے ہیں۔

دوسری طرف بیٹنگ کی بات کریں تو پچھلے 3، 4 سال میں پاکستانی ٹیم کا انحصار اپنے ٹاپ تھری پر رہا ہے جو ون ڈے کرکٹ میں پاکستان کی جانب سے بننے والے رنز میں سے تقریباً 58 فیصد رنز بنا رہے تھے۔ لیکن اس سال کے آغاز میں نیوزی لینڈ کے خلاف 3 سنچریاں بنانے والے فخر زمان، افغان سیریز سے ہی آؤٹ آف فارم ہیں اور اس کا باقی بیٹسمینوں پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔ بابر اعظم بھی نیپال کے خلاف سنچری کے بعد کچھ خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے۔ پاکستان کے لیے مثبت بات افتخار اور رضوان کی اچھی فارم ہے لیکن انہیں اچھے آغاز کی ضرورت ہے۔

پاکستانی ٹیم اب بھی ورلڈکپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر سکتی ہے لیکن اس کے لیے تمام کھلاڑیوں کو عمدہ کھیل پیش کرنا ہوگا اور کپتان اور ٹیم انتظامیہ کو اپنی اپروچ مثبت رکھنی ہوگی۔ سری لنکا کے خلاف حالیہ ٹیسٹ سیریز میں جس مثبت اپروچ ’دی پاکستان وے‘ کا وعدہ کیا گیا تھا، اس کا مظاہرہ ٹیسٹ کرکٹ کے ساتھ ساتھ ون ڈے کرکٹ میں بھی دکھانا ہوگا۔