پاکستان سمیت دنیا بھر میں 21 ستمبر کو ’عالمی یومِ الزائمر‘ منایا جاتا ہے۔
چونکہ بھولنے کی بیماری اور اس کی سب سے اہم قسم الزائمر کے ہونے کا اس وقت تک کوئی مکمل علاج میسر نہیں، اس وجہ سے اس بات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ بیماری سے بچاؤ کے حوالے سے عوام میں آگاہی پیدا کی جائے اور یادداشت کی بیماری کے وقوع پذیر ہونے اور اس کی دیگر اقسام کے ہونے میں تاخیر یا ممکنہ طور پر اس بیماری کو روکنے کے لیے مناسب وقت پر کردار ادا کیا جائے۔
عالمی ادارہ صحت کی ویب سائٹ پر فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 5 کروڑ 50 لاکھ لوگ بھولنے کے مرض کا شکار ہیں۔ ان مریضوں میں سے 60 فیصد کا تعلق کم یا متوسط آمدن والے ممالک سے ہے۔ جس تناسب سے ڈیمینشیا یعنی بھولنے کی بیماری بڑھ رہی ہے، اندازہ لگایا جارہا ہے کہ 2030ء تک مریضوں کی تعداد 7 کروڑ 80 لاکھ جبکہ 2050ء میں یہ تعداد 13کروڑ 90 لاکھ سے تجاوز کرسکتی ہے۔
بھولنے کی بیماری کا مرض اوسطاً دنیا بھر میں عمر میں اضافے کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں اس مرض کے اعداد و شمار پر بات کریں تو تشخیص شدہ مریضوں کی محتاط ترین تعداد تقریباً 10 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستانی معاشرے کے خاندانی نظام کے تناظر میں بالخصوص بھولنے کی بیماری کی تشخیص بروقت نہیں ہو پاتی، یہی وجہ ہے کہ بروقت علاج شروع نہیں ہوپاتا۔ نتیجتاً مریض اور اہل خانہ کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
الزائمر کی بیماری کیسے ہوتی ہے؟
الزائمر، جو ڈیمیشیا (بھولنے کی بیماری) ہی کی سب سے زیادہ عام قسم ہے، ایسا دماغی عارضہ ہے جس میں دماغ کے یادداشت کے نظام کے خلیے بتدریج ختم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ نتیجتاً دماغ کا وہ حصہ جو یادداشت کے نظام کا ذمہ دار ہوتا ہے، وہ متاثر ہونا شروع ہو جاتا ہے جس کے باعث اس انسان کی شخصیت، رویّہ، مزاج اور بحیثیتِ مجموعی حافظہ متاثر ہو جاتے ہیں۔ ڈیمینشیا کی کم و بیش 100 سے زائد اقسام ہیں جن میں سب سے زیادہ عام قسم الزائمر ہے۔
ڈیمیشیا ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ بہرحال بڑھتی عمر (Aging) ہی ہے لیکن ڈیمینشیا فقط بڑھتی عمر کی وجہ سے نہیں ہوتا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’اور تمہی میں سے بعض وہ ہوتے ہیں جن کو بدترین عمر (یعنی انتہائی بڑھاپے) تک لوٹا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی کچھ نہیں جانتے‘ (سورۃ الحج)۔
درج بالا کیفیت کو حرف عام میں نسیان کا مرض اور طب کی دنیا میں ڈیمینشیا کہتے ہیں۔ یہ ایک لمبا چلنے والا دماغی مرض ہے۔ دماغ میں 20 سے زائد مختلف جین (genes) ہیں جو کسی شخص میں ڈیمینشیا کے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ جین APOE وہ پہلی جین ہے جس کے بارے میں تحقیق سے پتا چلا کہ وہ الزائمرکی بیماری کی وجہ ہے۔
خواتین میں مردوں کے مقابلے الزائمر کی بیماری ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خواتین کی اوسط عمر مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔
مجموعی طور پر الزائمر کے مرض میں مبتلا ہونے کی حتمی وجہ تاحال تحقیق کے مراحل سے ہی گزر رہی ہیں۔ تاہم اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق ان میں مختلف جین جس میں APOE جین سب سے نمایاں ہے، کے علاوہ وٹامن بی 12 کی کمی، ذیابیطس، بلندفشار خون، فالج، نیند کی مسلسل کمی، موٹاپا، نیند آور، بے چینی و سردرد کی ادویات کا بے دریغ استعمال اور صحت مند دماغی و جسمانی سرگرمیوں کے فقدان جیسی وجوہات بھی بھولنے کی بیماری کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تساہل پسندی، دیر سے سونا و جاگنا، تمباکو نوشی اور غیر متوازی غذا کا استعمال بھی حافظے کی کمزوری کا سبب بن سکتا ہے۔
واضح رہے کہ جو افراد مستقل بنیادوں پر ذہنی و جسمانی معمولات کو اپنا کر رکھتے ہیں، ان میں بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات کم ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں یہ امر بتانا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ سالوں کے مختلف تحقیقاتی شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ فضائی آلودگی بھی ڈیمینشیا کے خطرے کو بڑھا دیتی ہے۔
ہمارے پالیسی ساز اداروں کو ماحول کی آلودگی اور اس کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ نیز سر کی چوٹ کے نتیجے میں یادداشت کا مسئلہ لاحق ہونے کا خطرہ خاصا زیادہ ہوجاتا ہے۔ معاشرے میں بڑے پیمانے پر اس ضمن میں آگاہی و شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ حکومتی اداروں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے متوجہ کرنا بھی بےحد ضروری ہے تاکہ حادثات کے نتیجے میں لگنے والی سر کی چوٹوں کو کم سے کم کیا جاسکے۔