باکمال لوگ، لاجواب سروس۔۔۔ یہ کسی دور میں ایشیا کی کامیاب ترین ائر لائنز میں شمار ہونے والی پی آئی اے کا موٹو تھا اور اس میں بہت حد تک سچائی بھی تھی۔ آئیے ہمارے ساتھ پرواز کیجیے (Come Fly with us) کا نعرہ بھی کار کردگی، سہولتوں اور سروس کے لحاظ سے لوگوں کو اپنی جانب کھینچتا تھا۔ اور لوگ ملک سے باہر اس ائر لائن سے سفر کرتے ہوئے یا اندرون ملک سفر پہ ہی اپنے پیاروں کو بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ ہم پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے آئے ہیں۔ پھر کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ اہل وطن اور خاص کر اہل فکر ونظر کے لیے یہ بات باعث تشویش ہے کہ ملک کا ایک اہم ادارہ ایک عرصے سے زوال کا شکار ہے۔ کرپشن اور اقربا پروری کے باعث قومی ادارے اربوں روپے کے خسارے سے دوچار ہیں۔ جن کی بحالی ناگزیر ہے۔ کرپشن کا ناسور ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قومی دولت اور وسائل کی لوٹ مار کے باعث پاکستان کے بڑے ادارے، اسٹیل ملز، ریلوے اور پی آئی اے سمیت متعدد پبلک سیکٹر ادارے تباہی کے دہانے پہنچ چکے ہیں ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 300 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ائر لائنوں میں کیا جاتا تھا، اس ادارے کا ماضی تو بہت شاندار رہا، لیکن حال بہت برا ہے۔
پی آئی اے وہ قومی ادارہ ہے جو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں عالمی سطح پر ایک کامیاب اور منافع بخش ائر لائن تھی تاہم ستر کی دہائی کے وسط میں اس میں خرابیاں پیدا ہونی شروع ہوئیں اور اس کا منافع کم ہونا شروع ہوا۔ 80 کی دہائی میں بھی اس کی حالت مناسب رہی مگر اس میں خرابیاں بڑھتی گئیں۔ پی آئی اے کی بحالی بالکل ممکن ہے اس سلسلے میں ملائشیاء اور امریکا کی قومی ائر لائن سمیت دنیا کی متعدد ائر لائنز کی مثالیں بھی موجود ہیں جو شدید خساروں کا شکار چلی آرہی تھیں لیکن مثبت اور قابل عمل اقدامات کے بعد منافع بخش بن کر آج کامیابیوں کا تسلسل قائم کیے ہوئے ہیں۔ البتہ مخلصانہ اور ایماندارانہ کوششوں اور موثر حکمت عملی سے پی آئی اے کو پھر سے ایک کامیاب ائر لائن بنایا جا سکتا ہے۔ اتحاد ائرویز، قطر ائرویز، ایمریٹس ائرویز اور را ائر بلیو جیسی فضائی کمپنیاں آج منافع میں جا رہی ہیں۔ اگر یہ فضائی کمپنیاں بہتر طور پر چل سکتی ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ پی آئی اے دنیا کی بہترین افرادی قوت ہونے کے باوجود مسلسل خسارے کا شکار ہے۔ پی آئی اے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے اس میں کرپشن کے دروازے بند کرنے ہوں گے۔ سیاسی مداخلت، فرائض کی انجام دہی میں ملازمین کی عدم دلچسپی اور مختلف شعبوں میں رابطوں کے فقدان جیسے مسائل سے جلد چھٹکارہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
پی آئی اے کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بیرونی سرمایہ کاری سے چلانے کا بڑا منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے۔ قرضوں کے دلدل میں پھنسی قومی ائر لائن کی بحالی کے منصوبے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، جس کے تحت سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن میں ہولڈنگ کمپنی بنا کر تمام اثاثے اور قرض نئی کمپنی کو منتقل کیا جائے گا۔ پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی میں قرض سے پاک سبسڈری کمپنی کے طور پر کام کرے گی۔ حکومت کی جانب سے تیار فریم ورک کو 2025ء تک مرحلہ وار مکمل کیا جائے گا جبکہ پی آئی اے کی تنظیم نو کے فریم ورک کو بھی حتمی شکل دے دی گئی۔ پی آئی اے بحالی منصوبے کو دو مراحل میں مکمل کیا جائے گا۔ قومی ائر لائن کو خسارے اور قرض سے پاک ائر لائن کے طور پر دوبارہ کھڑا کیا جائے گا۔ ایس ای سی پی میں ہولڈنگ کمپنی بنا کر پی آئی اے کا خسارہ اور واجب الادا قرض ہولڈنگ کمپنی بنا کر تمام اثاثے اور قرض کمپنی کو منتقل کیے جائیں گے۔ فریم ورک کے مطابق قومی ائر لائن کے 40فی صد شیئر انٹرنیشنل مارکیٹ میں فروخت کیے جائیں گے اور 40فی صد شیئرز کے ساتھ مینجمنٹ بھی آوٹ سورس کی جائے گی۔ پی آئی اے تنظیم نو کے عمل کو شفاف انداز میں مکمل کرنے کے لیے غیر ملکی کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
پی آئی اے کا مجموعی خسارہ اور قرض 742 ارب تک پہنچ چکا ہے، ساڑھے 3سو ارب کے گارنٹی لون اور 4سو ارب ائرلائن اثاثے گروی رکھ کر قرض لیے گئے قومی ائر لائن کے اثاثوں کی مالیت 130ارب روپے ہے اور رواں سال کے آخر تک مالیاتی خسارہ ساڑھے 8سو ارب تک پہنچ کا امکان ہے۔ موجودہ حکومت کے ڈیڑھ سال میں پی آئی اے کو 110 کا نقصان ہوا گزشتہ سال 2022 میں پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 80 ارب رہا جبکہ رواں سال مزید اضافے کے بعد 112 ارب متوقع ہے۔ 2030 تک پی آئی اے کا سالانہ خسارہ 259 ارب روپے تک پہنچ جائے گا برطانیہ یورپ فلائٹس پر پابندی سے قومی ائر لائن کو مجموعی نقصان 215 ارب تک پہنچ گیا، پروازوں پر پابندی سے قومی ائرلائن کو سالانہ 71ارب روپے کا نقصان ہوا دوسری جانب وزارت ہوابازی کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی تنظیم نو پیچیدہ عمل ہے مکمل کرنے میں ایک سال درکار ہے انہوں نے موقف اپنایا کہ تنظیم نو کے دوران پی آئی اے کا آپریشنل رہنا اشد ضروری ہے۔ ادھر ترجمان پی آئی اے کا کہنا ہے کہ حکومت کے تعاون سے بینکوں سے قرض حصول کے اقدامات کرلیے ہیں فنڈز جاری ہوتے ہی طیاروں کے پُرزوں، انجن اور سود کی ادائیگیاں کی جائیں گی۔ انہوں نے موقف اپنایا کہ پی آئی اے اپنی تاریخ کا بلند ترین ریونیو کما رہا ہے صرف ٹکٹ ریزویشن کے لیے سافٹ ویئر کی تبدیلی سے ایک ارب روپے ماہانہ بچ سکتے ہیں تو دیگر شعبوں اور سیکشنوں میں بھی ایسی جگہوں کا سراغ لگا کر ان کو بند کیا جائے جہاں پر اٹھنے والے اخراجات کم یا ختم کیے جا سکتے ہیں اسی طرح ائر لائن میں بدعنوانی یا خورد برد کو بھی روکا جائے مینجمنٹ کو ضرورت کے مطابق مختصر کیا جائے تو قومی ائر لائن ملک کے لیے باعث فخر بن سکتی ہے۔