کیا کبھی ہم نے سوچا کےپچھلے ربیع الاوّل سے ابتک کتنا ہم نے اپنے پیارے نبی ﷺ کوپہچاننے کی کوشش کی؟کیوں کہ جب انسان کسی کو جانتا ہے، پھر مانتا اور پھر آگے بڑھ کر منواتا ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ اپنی زندگی کے کتنے سال گزار کر بھی پہلے مرحلے کو سر نہیں کر سکے، کتنے ہی بڑے بادشاہ اور پوری زمیں پر حکومت کرنے والے گزرے مگر ان کے لیے کبھی ہم نے چار افراد کو بھی محفل سجا کر بیٹھا نہیں دیکھا کبھی کوئی جلسہ کوئی سیمینار نہیں دیکھا۔ محفل دیکھی تو آمنہ کے دُرّ یتیم کے لئے دیکھی، ان کے لیے دیکھی کے جن کا بستر ٹاٹ کا ہوتا تھا جن کی محبت انسانوں کے دلوں میں رچی بسی ہے۔کیوں کبھی سوچا؟اس کی وجہ ان کی انسانیت سے بے لوث محبت تھی کہ بستر علالت پر بھی آپ کہہ رہےتھے امتی امتی۔ اتنی محبت تھی میرے نبی اکرم ﷺ کو اپنی اُمت سے کے ان کے غم میں گھلے جاتے تھے اور دعائیں مانگا کرتے تھے۔
اس ربیع الاول ہمیں اپنے آپ کو ٹٹولنا ہوگا کہ میرے سامنے کوئی غلط کام کر رہا ہو تو مجھے اس کی کتنی فکر ہوتی ہے، میری پیشانی پر کتنے بل آتے ہیں، میں برائی کےخلاف کتنی آواز اٹھاتی ہوں یا اٹھانے والے کا ساتھ دیتی ہوں۔ آج بھی ہم سیرت النبی ﷺ کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جائے کہ آپ کی سب سے بڑی سنت اسلامی انقلاب تھا یعنی اللہ کے دین کوساری دنیا پر غالب کرنا۔ اگر آپ ﷺ کا تزکیہ اپنی ذات تک محدود ہوتا تو آپ ﷺ غار حرا سے نکل کر لوگوں کے درمیان نہ آتے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب اپنے نبی کا نمائندہ بنیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کو آگے بڑھائیں اور اس دین کو لوگوں تک پہنچائیں۔ آج ہمیں اپنے نبی ﷺ کا پیغام عام کرنا ہوگا اپنے اخلاق سے۔
آج ہمیں اپنے پیارے نبی ﷺ سے محبت کرنے والوں کے رُخ کو ان کی سب سے بڑی سنت کی طرف موڑنا ہوگا۔ اُسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں انقلابی اور متوازن معاشرے کے قیام کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی اور لوگوں کو بندوں کے بنائے ہوئے نظام سے نکال کر اسلام کے عادلانہ نظام کی طرف لے جانا ہو گا۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔