ورلڈ بینک کا انتباہ

‏پاکستان کو اس وقت ایک بڑے فیصلے کا سامنا ہے۔ یہ درست راستے کے انتخاب جیسا اہم ہوگا اُور یہی ملک کے مستقبل کا تعین بھی کرے گا۔

‏ورلڈ بینک مدد کے لیے مشورے اور کچھ پیسے دے سکتا ہے لیکن سب سے اہم فیصلے پاکستان میں رہنے والے لوگوں کو کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اس طرح ہے جب آپ کو کہانی کی کتاب کے لئے مہم جوئی کا انتخاب کرنا پڑتا ہے لہٰذا، پاکستان کے لئے یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہے کہ یہ کس قسم کی مہم جوئی کرنا چاہتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان بحرانی کیفیت سے گزرتے ہوئے جس مقام تک آ پہنچا ہے، وہاں اسے فیصلہ کرنا ہے کہ اشرافیہ کی گرفت اور فوجی، سیاسی اور کاروباری رہنماؤں کے مفادات کے تحت چلنے والے پالیسی فیصلوں کے تحت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والی 40 فیصد آبادی کے ساتھ پسماندہ رہنا ہے یا پھر تابناک مستقبل کے لیے راستہ تبدیل کرنا ہے۔ یہ واضح انتباہ ورلڈ بینک کی جانب سے نئے انتخابات سے قبل دیا گیا ہے، اور یہ واضح کیا کہ بین الاقوامی قرض دہندگان اور ترقیاتی شراکت دار صرف کامیابیوں کے عالمی تجربات اور کچھ مالی امداد کے ساتھ مشورہ دے سکتے ہیں لیکن مشکل انتخاب اور عمل درآمد کا فیصلہ ملک کے اندر ہی لیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بینہسین نے نیوز بریفنگ میں نئی منتخب حکومت کے آنے سے قبل بحث و مباحثے کے لیے پالیسی نوٹس کا ایک سیٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ اچھی علامت یہ ہے کہ بھارت، انڈونیشیا اور ویتنام جیسے اعلیٰ پائیدار اقتصادی ترقی کے حامل ممالک نے بھی بحران کے وقت درست فیصلے کیے اور اسی طرح کے چیلنجز پر قابو پانے میں کامیاب رہے، پاکستان میں یہ موقع پالیسی میں تبدیلیاں کرنے کا ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان انسانی وسائل اور معاشی بحران کے درمیان میں ہے، ناجی بینہسین کی جانب سے جاری ’ریفارمز فار اے برائٹر فیوچر: ٹائم ٹو ڈیسائڈ‘ کے جائزے میں لکھا گیا کہ پالیسی فیصلے بشمول فوجی، سیاسی اور کاروباری رہنما کے مفادات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو متعدد معاشی مشکلات کا سامنا ہے، جن میں مہنگائی، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، موسمیاتی جھٹکے اور ترقی اور کلائمٹ ایڈپٹیشن کی فنانسنگ کے لیے ناکافی وسائل شامل ہیں۔

ناجی بینہسین نے کہا کہ یہ ایک ’خاموش‘ انسانی وسائل کے بحران کا بھی سامنا کر رہا ہے، جس میں غیر معمولی طور پر بچوں میں غذائیت کی کمی کی وجہ سے نشوونما نہ ہونے کی زیادہ شرح، کم سیکھنے کے نتائج اور بچوں کی زیادہ اموات شامل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا معاشی ماڈل اب غربت میں کمی نہیں کر رہا ہے اور یہ بہت تشویشناک ہے کہ 2018 تک غربت میں کمی کی کامیابی ہوئی، اس کے بعد سے یہ رجحان الٹا ہو گیا ہے۔

عالمی بینک ہی سے تعلق رکھنے والے ایک اُور عہدیدار کا کہنا ہے کہ پاکستان کی غربت کی شرح 3.20 ڈالر کی درمیانی آمدنی لائن کے لیے 2018 تک کم ہو کر 34.3 فیصد تک آ گئی تھی، جو دو دہائیوں قبل 37.5 فیصد پر تھی، تاہم وہ دوبارہ بڑھ کر 39.4 فیصد تک جاپہنچی ہے، اسی طرح ایک کروڑ 25 لاکھ سے زائد مزید افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے، جس کی پیمائش 3.65 ڈالر یومیہ آمدنی سے کی جاتی ہے۔

عالمی بینک نے بتایا کہ پاکستان کی اوسط حقیقی فی کس آمدنی 2000 سے 2020 کے درمیان محض 1.7 فیصد بڑھی، اس دورن جنوبی ایشیا کی فی کس اوسط آمدنی میں 4 فیصد اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں پاکستان فی کس آمدنی میں دیگر ہمسایہ ممالک سے پیچھے رہ گیا، مزید کہا کہ پاکستان کا شمار فی کس آمدنی کے حساب سے 1980 کی دہائی میں جنوبی ایشیا کے سرفہرست ملکوں میں ہوتا تھا تاہم اب اس کا شمار خطے میں فہرست کے نچلے ممالک میں ہوتا ہے۔

پاکستان انسانی ترقی کے حوالے سے جنوبی ایشیا کے ممالک سے بہت پیچھے ہے، جبکہ 5 برس سے تقریباً 40 فیصد بچے غذائیت کی کمی کی وجہ سے نشوونما میں کمی اور پاکستان میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ 2 کروڑ 3 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔

عالمی بینک نے 10-9 فیصد کی موجودہ شرح کے مقابلے میں جی ڈی پی کے 22 فیصد تک ریونیو صلاحیت کے مطابق بڑھانے کی تجویز پیش کی، اور مزید کہا کہ پراپرٹیز اور زراعت پر ٹیکس عائد کر کے جی ڈی پی کا تقریباً 3 فیصد فوری طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے، جو بالترتیب جی ڈی پی میں 2 فیصد اور 1 فیصد حصہ ڈال سکتا ہے۔

عالمی بینک کے مطابق اس کے ساتھ اصلاحات کے ذریعے اخراجات میں فوری طور پر 1.3 فیصد اور درمیانی مدت میں تقریباً 2.1 فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے، اس طرح حاصل ہونے والے فنڈز صحت، تعلیم اور صفائی و ستھرائی کے لیے استعمال کیے جانے چاہئیں۔

عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے کہا کہ خسارے کی سرمایہ کاری کے لیے اعلیٰ شرح سود پر بینک قرض لینے پر حکومت کا بھاری انحصار بھی بلند مہنگائی کی ایک وجہ ہے۔

عالمی بینک نے کم فنڈڈ، غیر موثر، اور بکھرے ہوئے سروس ڈیلیوری اور سماجی تحفظ کے نظام کے بجائے انتہائی کمزور افراد کے لیے مربوط، مؤثر اور مناسب مالیاتی خدمات کی فراہمی کی طرف پالیسیوں کو منتقل کرنے کی تجویز پیش کی۔