سیاسی ابہام کی دھند

‏پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بغیر کسی تاخیر کے آئندہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے۔‏

‏پیپلز پارٹی نے تمام سیاسی جماعتوں کے لیے یکساں مواقع کا مطالبہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن پر زور دیا ہے کہ وہ آئین کے مطابق انتخابات کی تاریخ اور شیڈول کا اعلان کرے جبکہ پی ٹی آئی کا اصرار ہے کہ الیکشن کمیشن 90 دن کی آئینی مدت کے اندر انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے اپنا آئینی کردار ادا کرے۔‏

‏یہ مطالبہ الیکشن کمیشن کے اس اعلان کے چند روز بعد سامنے آیا ہے کہ انتخابات جنوری کے آخری ہفتے میں ہوں گے کیونکہ حلقہ بندیوں کا عمل 30 نومبر تک مکمل ہوجائے گا جس کے بعد عام انتخابات سے قبل 54 دن کے انتخابی پروگرام کی مدت ہوگی۔‏

‏بظاہر اس اعلان نے سیاسی ابہام کی دھند کو دور کر دیا اور سیاسی اور معاشی استحکام کی بحالی کی امیدوں کو پھر سے زندہ کر دیا لیکن انتخابات کے وقت کے بارے میں ہوا صاف ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن نے انتخابات کی صحیح تاریخ کا اعلان نہیں کیا جس سے قیاس آرائیوں کی گنجائش پیدا ہوگئی۔‏

‏لہٰذا پی ٹی آئی کے ترجمان نے الیکشن کمیشن پر زور دیا کہ وہ عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے بچنے کے لیے تکنیکی باتوں کے پیچھے چھپنے کی بیکار روایت کو ترک کرے۔‏

‏پی ٹی آئی عہدیدار نے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے میں تاخیری حربے استعمال کرنے پر بھی تنقید کی اور مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن آئین سے انحراف سے گریز کرے۔‏

‏ایک بیان میں پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنے عہدیداروں کے ذریعے تکنیکی وجوہات کو بہانے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ انتخابات کی صحیح تاریخ کا اعلان نہ کیا جا سکے، انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا نظام جمہوریت کی بنیاد پر قائم ہے۔ لہٰذا الیکشن کمیشن کو آئینی فریم ورک کے اندر منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے اپنی آئینی ذمہ داری نبھانے پر توجہ دینی چاہیے۔‏

‏اگرچہ آئین میں قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کروانا لازمی قرار دیا گیا تھا لیکن الیکشن کمیشن نے جنوری کے آخری ہفتے کو پولنگ کے لیے اس بنیاد پر منتخب کیا تھا کہ سابقہ مخلوط حکومت نے اسمبلی تحلیل کرنے سے چند روز قبل مردم شماری کے نتائج کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا اور اس فیصلے میں انتخابات سے قبل حلقہ بندیوں کا عمل مکمل کرنا لازمی قرار دیا گیا تھا۔‏

‏ترجمان نے کہا کہ الیکشن کمیشن 240 اگست کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 9 کروڑ افراد کو ووٹ کا آئینی حق دینے کو تیار نہیں ہے۔ انہوں نے آئین کے مطابق مقررہ مدت کے اندر انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے ملک کے صدر کی سنجیدہ کوششوں کے بارے میں "مجرمانہ غفلت" کا نقطہ نظر اپنانے پر الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا۔‏

‏ترجمان پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے تکنیکی حربوں اور آئین کی غلط تشریح کی آڑ میں قوم سے ووٹ کا حق چھیننے کی کوششوں پر پوری قوم شدید تشویش میں مبتلا ہے۔‏

‏انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن جمہوریت کی قبر کھودنے اور پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور بنانے اور دنیا کے سامنے لاقانونیت کی سرزمین بنانے کی شرمناک کوششوں کو فوری طور پر بند کرے اور 90 دن کے اندر انتخابات کی تاریخ دے۔‏

‏ایک بیان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل نیئر حسین بخاری نے کہا کہ الیکشن کمیشن تاریخ اور شیڈول بتائے اور عبوری حکومت ملک میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں اس کی مدد کرے۔‏

‏پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ سیاست میں مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے، پیپلز پارٹی نے جمہوریت اور آئین کی خاطر اپنے حریفوں کے ساتھ اتحاد کیا۔‏

‏انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی نے حالیہ دنوں میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ میثاق جمہوریت پر بھی دستخط کیے ہیں۔‏

‏انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی تلخیاں بڑھانا نہیں چاہتی لیکن وہ ان گروہوں کے ساتھ کام نہیں کر سکتی جو ریاست اور ریاستی اداروں کے دشمن ہیں۔ زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی قیادت کو نااہل قرار دیا گیا ہے، پارٹی نے انٹرا پارٹی الیکشن بھی نہیں کرائے۔‏

‏زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ نواز شریف عمران خان کے اسپتال کے ڈاکٹروں کی سفارش اور عدلیہ کے حکم پر بیرون ملک گئے۔‏

‏انہوں نے کہا کہ نواز شریف پاکستان آئیں اور اپنا سیاسی کردار ادا کریں۔‏

‏انہوں نے کہا کہ احتساب کے نام پر انتقام لینا پیپلز پارٹی کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے، پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری نے مقدمات میں عدلیہ کی جانب سے بری ہونے سے قبل بغیر کسی سزا کے طویل قید کی سزا گزاری۔‏