نواز لیگ : نیا بیانیہ

نواز شریف اپنی پارٹی کی مقبولیت کے حصول کے لئے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بنانا چاہ رہے ہیں۔ نواز لیگی چاہتے ہیں کہ عوام شہباز شریف حکومت کا دور بھول جائیں اور بس نواز شریف کی دوہزارتیرہ سے دوہزار سترہ کے دوران دور حکومت کو یاد رکھیں۔

میاں نواز شریف اُسی دور کی بات کرتے ہوئے جو بیانیہ بنانا چاہ رہے ہیں اُس کے مطابق موجودہ حالات کے ذمہ دار جنرل باجوہ، جنرل فیض، ثاقب نثار اور آصف کھوسہ ہیں۔ پارٹی رہنماؤں سے اپنے ایک حالیہ خطاب میں اُنہوں نے جسٹس اعجاز الاحسن کا بھی نام لیا اور کہا سازش کرنے والے اور اس پر عمل درآمد کرنے والے تمام کرداروں کو سزا دیے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔

اس دوران میاں صاحب اور نواز لیگ عوام سے یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس حقیقت کو بھی بھول جائیں کہ اس سازش کے مرکزی کردار جنرل باجوہ کو دوہزاراُنیس میں ایکسٹینشن دیتے وقت نواز لیگ اور میاں نواز شریف کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ بہرحال یہ تو ہمیں پتا ہے کہ ہمارے ہاں سیاست میں کوئی اصول نہیں ہوتالیکن محسوس ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف اور ن لیگ یہ نیا بیانیہ بناتے وقت ممکنہ خطرات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

اس بیانیہ کا مطلب یہ ہو گا کہ نواز شریف انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اپنی ممکنہ حکومت کیلئے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ لڑائی کی بساط ابھی سے بچھا رہے ہیں۔

انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کو سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہو گی جو پاکستان کی معیشت کہ بہتری کیلئے لازم ہے تاہم جس راستے پر نواز شریف چلنا چاہ رہے ہیں وہ اُنہیں (اگر نواز لیگ واقعی حکومت بنا لیتی ہے) پہلے دن سے اداروں کے ساتھ ایک جنگ میں جھونک دےگا۔

حکومت ملنے کے بعد اگر میاں صاحب اس بیانیہ کو بھلانا بھی چاہیں گے تو میڈیا اور اپوزیشن اُن کو سازش کرنے والوں کو سزا دینے کا وعدہ یاد دلاتے رہیں گے اور یوں معیشت جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہو گی وہ سیاسی عدم استحکام کا ایک بار پھر شکار ہو جائے گی۔

ہمارا ماضی غلطیوں سے بھرا ہے ،چاہے وہ اسٹیبلشمنٹ ہو، عدلیہ یا سیاستدان۔ سب اپنی اپنی غلطیوں کو سدھاریں اور ماضی کی بجائے پاکستان کے حال پر توجہ دیں اور مستقبل کوسنواریں۔