امتحانات: نقل کا رجحان

خیبر پختونخوا میں 10 ستمبر کو میڈیکل کالجز میں داخلے کا امتحان صوبے میں قائم 44 امتحانی مراکز میں لیا گیا، جس میں تقریباً 46 ہزار طلبا اور طالبات نے حصہ لیا۔

اس امتحان سے پہلے چیف سیکرٹری اور دیگر اعلیٰ حکام کو اطلاع موصول ہوئی تھی کہ اس امتحان میں بڑے پیمانے پر نقل کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کی جاچ پڑتال کے لیے امتحانی مراکز میں سختی کی گئی اور 200 سے زیادہ بلیو ٹوتھ ڈیوائسز برآمد کی گئی تھیں۔

ان طلبا اور طالبات کے خلاف ایف آئی آرز درج کر کے انھیں پولیس کے حوالے بھی کیا گیا۔

خیبرپختونخوا کی پولیس نے میڈیکل کالجز میں داخلے کے ٹیسٹ میں نقل سکینڈل میں ملوث گروہ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ سرغنہ سمیت نو افراد کو حراست میں لیا ہے جبکہ تفتیشی ٹیم کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس گروہ کی بدولت بظاہر اس امتحان کی ساکھ متاثر ہوئی۔

پولیس کے مطابق یہ گروہ امتحان میں شامل طالب علموں کو بلیو ٹوتھ ڈیوائس کے ذریعے نقل کرانے کے لیے 25 لاکھ روپے سے 35 لاکھ روپے تک رقم وصول کر رہا تھا۔

پولیس نے پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں کی جانے والی کارروائی کے دوران گرفتار ہونے والے افراد سے 44 الیکٹرانک ڈیوائسز، چار عدد مائیکروفون، تین عدد موبائل فون، ایک سمارٹ واچ اور لاکھوں روپے کا ایک بینک چیک بھی برآمد کیا ہے۔

یاد رہے کہ خیبر پختونخوا میں 10 ستمبر کو میڈیکل کالجز میں داخلے کا امتحان صوبے میں قائم 44 امتحانی مراکز میں لیا گیا، جس میں تقریباً 46 ہزار طلبا اور طالبات نے حصہ لیا۔

ایجوکیشن ٹیسٹنگ اینڈ ایویلوئیشن ادارے (ایٹا) کے حکام کے مطابق انھوں نے امتحانی ہال میں طلبا اور طالبات کی تلاشی لی اور 200 سے زیادہ امیدواروں سے یہ بلیو ٹوتھ ڈیوائسز برآمد کی۔

اس بارے میں پشاور ہائیکورٹ میں درخواستیں دی گئی ہیں جس پر سماعت کی جا رہی ہے تاہم عدالت نے نتائج پر حکم امتناعی جاری کیا ہوا ہے۔

پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس عبدالشکور اور جسٹس ارشد علی اس کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔

جمعرات کے روز پشاور ہائیکورٹ میں اس کیس کی سماعت ہوئی تو خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی ابتدائی رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے اس امتحان میں بڑے پیمانے پر نقل کا سکینڈل سامنے آیا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کو جو ابتدائی معلومات حاصل ہوئیں، اس کے مطابق اس میں صوبائی اور یہاں تک کہ وفاقی سطح کے اعلی افسران بھی شامل ہیں۔

درخواست گزاروں کے وکیل امان ایوب ایڈووکیٹ نے بتایا کہ انھوں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ یہ امتحان ہائی جیک کیا گیا تھا اور یہ ایک بہت بڑا سکیم (دھوکہ) تھا جس میں ایسی ڈیوائسز استعمال کی گئی تھیں جو جاسوسی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا عامر جاوید کے مطابق اس امتحان میں نوے فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والوں کا تناسب بھی بہت زیادہ ہے، جس پر بہت زیادہ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔

ایٹا کے چیف ایگزیکٹو محمد امتیاز نے عدالت کو بتایا کہ آج تک ایٹا کا کوئی پرچہ لیک نہیں ہوا۔

محمد امتیاز کے مطابق ہم نے پولیس سے جیمر مانگے تھے مگر ایبٹ آباد کے علاوہ ہمیں جیمر نہیں ملے۔ ’ایٹا عملے نے موقع پر خود ہی بلیوٹوتھ ڈیوائسز بر آمد کر کے مقدمے درج کروائے تھے۔‘

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن کی مکمل رپورٹ کب آئے گی، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ رپورٹ ممکنہ طور پر اگلے ہفتے آ سکتی ہے۔

اس کیس کی آئندہ سماعت کے لیے 27 ستمبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔