ربیع الاول : عشق مصطفی کے تقاضے

ربیع الاوّل وہ مبارک مہینہ ہے جس میں رب العالمین نے محسن انسانیت، پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمتِ مجسم بناکر اس خاکدان عالم میں بھیجا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی روشن تعلیمات اور نورانی اخلاق کے ذریعہ دنیا سے نہ صرف کفر و شرک اور جہالت کی مہیب تاریکیوں کو دور کردیا بلکہ لہوولعب، بدعات و رسومات اور بے سروپا خرافات سے مسخ شدہ انسانیت کو اخلاق و شرافت، وقار و تمکنت اور سنت و شریعت کے زیور سے آراستہ وپیراستہ کردیا۔

محسن کائنات کے عشق کے مدعیو! ذرا کچھ تو غور و فکر اور ہوش سے کام لو وہ دعویٴ محبت یکسر فریب ہے جواطاعت واتباع سے خالی ہو۔

لوکان حبّک صَادقًا لاطعتہ               لان المحب لمن یحب یطیع

تم زبان سے محبت رسول کا دم بھرتے ہو، مگر تمہارے طور طریقے اوراعمال و اشغال تعلیمات رسول ہدایاتِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے سراسر خلاف ہیں۔ ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل آخری وقت میں جب کہ نبض ڈوب رہی تھی اور نزع کا عالم طاری تھا تمہیں نماز کی وصیت فرمائی تھی۔ غیر محرم عورتوں سے اختلاط تو بڑی چیز ہے ان کی جانب نظر اٹھانے کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین وایمان کی ہلاکت قرار دیاتھا۔ بیجا اسراف اور فضول خرچی سے تمہیں باز رہنے کی موٴکد ہدایت فرمائی تھی۔ لیکن آج انہیں کے نام پر ان جلسوں جلوسوں میں تم وہ سب کچھ کرتے ہو جس سے تمہارے محسن نے روکاتھا۔

اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں اعلان فرمادیا ہے کہ دنیا و آخرت کی کامیابی اللہ کے احکام کے پوراکرنے اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر چلنے میں ہے۔

ارشاد ربانی ہے:

فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُونَ عن اَمْرِہ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فَتَنَةٌ اَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ الیم (المومنون)

(جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ ان پر کوئی آفت آجائے یا ان پرکوئی دردناک عذاب نازل ہوجائے۔)

ایک موقع پر ارشاد ہے:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُو مُوٴمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہ حَیوة طَیَّبَة ولَنَجْزِیَنَّہُم اَجْرَہم بِاَحْسَن مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ․

(جو شخص نیک کام کرے مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ایمان والا ہو تو ہم اسے ضرور اچھی زندگی بسر کرائیں گے (یہ دنیا میں ہوگا اور آخرت میں) انکے اچھے کاموں کے بدلے میں ان کو اجر دیں گے)

ان آیات پر غور کریں اور دیکھیں کہ ہم اپنے اعمال واخلاق کے ذریعہ اپنے آپ کو مورد آفات اورمستحق عذاب بنارہے ہیں یا دنیا میں حیات طیبہ (راحت کی زندگی) اور آخرت میں اجر و ثواب کے لائق بن رہے ہیں۔

رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے:

قد افلح من اخلص قلبہ للایمان وجعل قلبہ سلیماً ولسانہ صادقًا ونفسہ مطمئنة وخلیقة مستقیمہ وجعل اذنہ مستمعة وعینہ ناظرة (الحدیث رواہ الامام احمد فی مسندہ ۵/۱۴۸)

یقینا وہ شخص کامیاب ہوگیاجس نے اپنے دل کو ایمان کے لئے خالص کرلیا اور اپنے دل کو (کفر و شرک اور نفسانی رذائل) سے پاک و صاف کرلیا، اپنی زبان کو سچا رکھا اپنے نفس کو مطمئن بنالیا (کہ اس کو اللہ کی یاد سے اوراس کی مرضیات پر چلنے سے اطمنان وسکون ملتا ہو) اپنی طبیعت کو درست رکھا (کہ وہ برائی کی طرف نہ چلتی ہو) اپنے کان کو حق سننے والا بنایا اور اپنی آنکھ کو (ایمان کی نگاہ سے) دیکھنے والا بنایا۔

قرآن و حدیث میں یہ مضمون بار بار مختلف اسلوب میں بیان کیاگیا ہے کہ دنیا وآخرت کی فلاح و کامیابی اللہ اوراس کے پاک رسول کی اطاعت میں منحصر ہے۔

مسلمان اپنی زندگی میں آنے والے تمام معاملات میں اسوہ نبی کو شامل کرکے ہی خوشگوار اور عزت کی زندگی بسر کر سکتے ہیں ہرمسلمان خواص سے عوام تک کی ذمہ داری اور عقیدت ومحبت رسول کا تقاضا ہے کہ اپنے آپ کو رسول پاک کی سنتوں کے سانچے میں ڈھالنے کا عزم مصمم کرلیں او رہر منزل پر ہر موقعہ پر انہیں سنتوں کی عملی تفسیر بن کر سامنے آئیں دل، زبان اور عمل اور میں یکسانیت پیدا کریں۔

ریاکاری ونام ونمود سے بچیں، خلوص وللہیت کو اپنالیں۔ ایثار وقربانی پر کمربستہ رہیں، صبر واستقلال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ صورت وشکل وضع قطع کو اسلامی تہذیب کا آئینہ نہ دیں۔ کسی بھی غریب ناچار مجبور کی طاقت بھر مدد کریں۔ مظلوم کی حمایت، حق کی پاسداری کریں، علماء کرام، حفاظ، مساجد کے اماموں کی عزت واحترام کریں۔ تعلیم کو عام کرنے میں بھرپور حصہ لیں۔ اچھی اور نیک باتیں بلا جھجھک مگر شفقت و احترام کے ساتھ دوسروں کو بتائیں۔ اختلاف وانتشار سے بچنے اور بچانے کی پوری کوشش کریں۔

دینی کتب کا مسلسل مطالعہ کرکے علم میں اضافہ کریں۔

بے حیائی، بے پردگی، اور عریانیت سے احتراز لازم رکھیں۔

اولاد کو دینی تعلیم بھرپور دیں۔

جہاں کہیں رہیں جس مجلس میں رہیں جس سوسائٹی میں رہیں مگر ایک سچے مسلمان بن کر رہیں اور اسلامی تعلیمات اداب واخلاق کی عملی وزبانی تبلیغ میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔

موجودہ حالات میں ہماری دلت ورسوائی کا سبب تعلیمات نبوی سے انحراف کا نتیجہ ہے محبت رسول اور عشق نبی کے دعویدار اپنی زندگیوں میں اسو نبی شامل کرکے ہی حقیقی محبت اور عشق محمدی کا لطف اٹھاسکتے ہیں محسن کائنات نے فرمایا کہ۔ جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگے۔

اتباع سنت او راطاعت رسول صرف چند عبادات تک محدود نہیں بلکہ یہ طاعت رسول پوری زندگی پر محیط ہے نماز کی ادا ئیگی میں جس طرح اتباع سنت مطلوب ہے اس طرح اخلاق وکردار میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے جس طرح روزے میں حج اور عمرہ میں مکمل اتباع سنت مطلوب ہے تمام حالات میں اتباع رسول ہی مقصود ہے شادی بیاہ خوشی وغمی ایصال ثواب زیارت قبور حقوق العباد حقوق اللہ کی ادائیگی میں طریقہ  نبی لازم ہے۔ ہر مسلمان اپنی ذاتی زندگی کا محاسبہ کرے کہ ہمارے شب وروز میں عشق نبی کس قدر اہمیت رکھتا ہے ماہ ربیع الاول ہر سال ہمیں کیا پیغام دیتا ہے او رہم اس پیغام کو کتنی  اہمیت کے ساتھ اپنی زندگی میں شامل کرتے ہیں آپؐ کی حیات مبارکہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے جس کی روشنی میں بے خوف وخطر زندگی گذاری جاسکتی ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہ ہدایت کی توفیق دے۔ آمین۔

حضور اکرمؐ کی مکی زندگی اور مدنی زندگی اگر پیش نظر رہے تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔

اللہ تعالیٰ عید میلاد النبی کے اس موقع پر تمام مسلمانوں کو نیا عزم نیا حوصلہ اور عملی جذبہ عطا فرما کر سنت رسول پاک کا آئینہ بنائے آمین ثم آمین۔