ہم کو درکار ہے روشنی یا نبیﷺ۔۔۔۔۔۔۔!

آقائے نام دار، امام المرسلین، خاتم النبیین، رحمت اللعالمین ﷺ کی ولادت سعادت کی نسبت امت محمدیؐ کے لیے ربیع الاول وہ مہینہ ہے جب رب ذوالجلال نے تمام انبیائے کرامؑ سے اکمل و افضل جناب رسول کریم ﷺ کو اس دنیا میں مبعوث کرکے اس راز ہستی کے چہرے سے پردہ اٹھایا جو مقصود کائنات، محبوب رب العالمین ہیں۔

رسول مجتبیٰ کہیے، محمّد مصطفیؐ کہیے

خدا کے بعد بس وہ ہیں‘ پھر اس کے بعد کیا کہیے

ربیع الاول کی مبارک ساعتوں میں بارہ ربیع الاول وہ پُرنور تاریخ جو اس ہستی کے اس دنیا میں عالم افروز ہونے کی خبر لائی، جن کے انتظار میں پیر کہن سال نے سیکڑوں برس گزار دیے۔ وہ نُور قدسی جس کے ظہور کے لیے سیارگاں فلک اس دن کے شوق میں ازل سے چشم بہ راہ تھے، آسمان کی وسعتیں اور روئے زمین کی پنہائیاں، جن کی آمد کے لیے بے چین و بے تاب تھیں، گردش لیل و نہار کروٹیں بدل رہی تھی۔ اور پھر عالم رنگ و بُو چہک اٹھا، نگاہیں خیرہ کن ہوئیں، ارض و سماء میں شور اٹھا:

تجلیوں کے کفیل تمہی ہو‘ مراد قلب خلیلؑ تمہی ہو

خدا کی روشن دلیل تمہی ہو‘ یہ سب تمہاری ہی روشنی ہے

الغرض بارہ ربیع الاول کو تمام عالم کے لیے رحمتوں و شفاعتوں کے دروازے کھل گئے، جس طرح شب تاریک کی ظلمتیں مہر افروز عالم کی آمد کا مژدہ اپنے اندر پنہاں رکھتی ہیں، اسی طرح اس خاک دان کا ہر چپّا، جو ظہور قدسی سے پہلے کفر و جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہُوا تھا، اس نورانی و ملکوتی نُور سے جگمگا اٹھا، وہ ہستی وجود میں آئی جو دنیا کی تاریخ بدل ڈالنے والی تھی، جو آخری اور سب سے بڑی نبوت تھی، جس کے لیے ڈھائی ہزار سال پہلے سے تیاری کی جا رہی تھی، دعائے خلیلؑ کی تکمیل ہونے لگی، وہ وقت آن پہنچا جس کے لیے حضرت ابراہیمؑ نے اپنی اولاد کو مکہ کی آب و گیاہ وادی میں لا کر بسایا تھا، جن کے لیے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت انھوں نے اور حضرت اسمٰعیلؑ نے دعا مانگی تھی۔ مفہوم: ’’اے ہمارے رب! اور تو ان لوگوں میں خود انھی کی قوم سے ایک ایسا رسول بھیج جو تیری آیات سنائے اور کتاب حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوار دے۔‘‘

یوں مراد قلب خلیل پوری ہونے کے ساتھ حضرت عیسٰیؑ کی بشارت کی بھی تصدیق ہوئی، جو انھوں نے کی تھی کہ میں تم کو آنے والے رسول کی خُوش خبری دیتا ہوں جن کا نام احمد ہے۔

ہوئی پہلوئے آمنہؓ سے ہویدا دعائے خلیلؑ و نوید مسیحا

اﷲ تعالیٰ نے دعائے ابراہیمی کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے بارہ ربیع الاول صبح صادق کے وقت بی بی آمنہؓ کی گود میں رسالت کا چاند جگمگا اٹھا، جن کی ولادت باسعادت کی بشارت آپؐ کی والدہ ماجدہ کو یوں ہوئی کہ انھیں ایسا محسوس ہُوا کہ ان کے اندر سے ایک نُور نکلا ہے جس سے ملک شام کے محلات ہی نہیں، بلکہ مشرق و مغرب روشن ہوگئے ہیں۔ بی بی آمنہؓ کی گود میں وہ لعل و گوہر آیا جو محبوب رب دو عالم اور افضل الانبیاء تھا۔ ان کی گود میں رسالت کا وہ پھول کھلا جس کی خوش بُو سے پورے عالم کو منور ہونا تھا۔ آپؐ کی جبیں ماہتاب سے نکلتی ہوئی نور و حقیقت کی شعاعوں و جاہ و جلال کو دیکھ کر قیصر و کسریٰ کے تخت لرز اٹھے۔

بطحیٰ کی سنگلاخ پہاڑیوں سے رشد و ہدایت کا وہ ماہتاب روشن ہوا، راہ نمائی کا وہ دریچہ کھلا جس کے فیضان نے ظلمت کدہ عالم کو ماہ منیر بنا دیا، تاریخ کے اوراق میں رسالت کے ایسے باب کا اضافہ ہُوا جسے آئندہ چل کر وحی و رسالت کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا تھا۔ اس عالم گیر کفر و شرک کو مٹانے کے لیے عبد و معبود کا فرق بتلانے کے لیے، دین اسلام کو پھیلانے کے لیے، اﷲ رب العالمین نے آپؐ کو رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا، ارشاد باری تعالیٰ: ’’ہم نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔‘‘

آپؐ کی ذات سب سے افضل اور آپؐ کی دعوت رسالت سب کے لیے روشی ثابت ہوئی۔ آپؐ کی رحمت و شفقت کا دائرہ ہر عہد، ہر زمانے، ہر قوم، اپنے پرائے، تمام جہانوں اور دنیا و آخرت کو سمیٹ گیا، حضور ﷺ کی ’’صفت رحمت‘‘ اور ’’شان رحمۃ اللعالمین‘‘ نے سپید و سیاہ کو اپنی آغوش میں پناہ دے کر ناصرف عرب بلکہ پوری دنیا میں ایک نئی روح پھونک دی۔

اتر کر حرا سے سُوئے قوم آیا

اور اِک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

غار حرا کا ایک لفظ ’’اقراء‘‘ جو ایک امی نبی ﷺ کی زبان سے نکلا، ایک عالم گیر انقلاب کی دعوت تھا۔ ایک ایسا روحانی و اخلاقی انقلاب جس نے انسان کو شیطان کے حرام فریب سے نکال کر فرشتوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ اور جس بلندی پر زمانہ فلسفہ و قوموں کے معلم پہنچنے سے قاصر رہے، وہیں اس ایک لفظ ’’اقراء‘‘ سے امی نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کسی انسانی تعلیم کے بغیر اشارہ ربانی سے معلّم اعظم کے درجے تک پہنچ گئے۔ لاکھوں درود و سلام اس ذات اقدس پر جنھیں تاریخ عالم دنیا کے سب سے بڑے معلم اعظم اور مصلح اعظم مانتی ہے۔ خورشید نبوت کے طلوع ہونے سے ظلمت شب کافور ہوئی، ذرہ ذرہ آفتاب رسالت کی پُرنُور کرنوں سے چمک اٹھا، جس کی شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں، اخلاق انسانی کا آئینہ پرتو قدسی سے چمک اٹھا۔

توحید کا غلغلہ اٹھا، چمنستان سعادت میں بہار آگئی، خدا پرستی و حق پرستی کی راہیں کھل گئیں۔ ایک خدا کی وحدانیت نصیب ہوئی، کفر و شرک کا اندھیرا ختم ہوا۔ انسانیت کا کھویا ہوا وقار بلند ہوا۔ کبر و غرور کا بت زمیں بوس ہوا، رنگ و نسل کے امتیازات اٹھ گئے، تمیز آقا اور غلام اٹھ گئی، دختر کشی کا سدباب ہوا، وہ عرب جو اپنی بیٹیوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے، انھی بیٹیوں و عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق ملے، عرب جو لوٹ مار، قتل و غارت و راہ زنی میں مبتلا تھے، شراب و جوا جن کی گھٹی میں پڑا تھا، انہیں اخلاقی و روحانی گُر بتلا کر فلاح و بہبود کی نعمتوں سے مال مال کر دیا، وہ جو بکریوں کے پہلے پانی پلانے اور گھوڑا آگے بڑھانے پر ایک دوسرے کے جانیں دشمن بن جاتے تھے ان کے دل و دماغ میں اخوّت، مساوات و بھائی چارے کا ایسا گہرا نقش بٹھایا کہ وہ بھائی بھائی بن گئے۔

اس جاہل و وحشی قوم کو اخلاق و تمدن کے ایسے بلند و حکیمانہ اصول و نظریے سکھائے کہ دنیا ان کے اخلاقی جلوئوں و پہلوؤں کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ عداوت کی جگہ انس نے، انتقام کی جگہ عفو نے، خود غرضی کی جگہ اخلاص و پیار نے، غرور و تکبّر کی جگہ تواضح و انکسار نے لے لی۔ یہ وہ اخلاقی دینی و روحانی انقلاب تھا جس کی برکت سے عرب کے صحرا نشینوں نے تاریخ عالم کا رخ موڑ دیا۔

تاریخ شاہد ہے کہ آپؐ کے اتباع سے وہ عرب قوم جو جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی علم و حکمت کی دولت سے مالا مال ہو کر علم و ہنر کی مشعل بردار اور اسلامی تہذیب کی علم بردار بن گئی۔ جہلاء عرب اپنی جہالت سے تائب ہوکر منصب امامت پر فائز ہوگئے۔ حرا کے اس گوشہ نشینؐ نے بت پرستوں کو توحید خداوندی کا ایسا سبق  پڑھایا کہ وہ دین اسلام کے مبلّغ و علم بردار بن کر ساری دنیا پر چھا گئے۔ جو اخلاق سے عاری تھے، وہی زہد و تقویٰ میں مشہور ہوئے۔ جو خانہ جنگی اور لاقانونیت کا شکار تھے، وہی امن عالم کے ضامن اور صلح کل کے داعی بن گئے۔ جو خدا ترسی اور خدمت خلق سے عاری تھے، وہی اسے نصب العین بنا کر عالمی سیاست و عالم گیر تہذیب کے مالک بن گئے۔

آپ ﷺ نے شتربانوں کو جہاں بانی کے ایسے گُر بتلائے و سکھلائے کہ مشرق تا مغرب ان کے جھنڈے لہرانے لگے۔ علم و معرفت کے وہ اصول سکھلائے کہ وہ محفل علوم کے صدر کہلائے۔ آپؐ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرکے عربوں نے نئی دنیا بنا ڈالی، اور علم و عمل کی بے پناہ طاقت سے ساری دنیا کے امام، قائد اور حکم ران بن گئے۔ وہ جن کی فکری صلاحیتیں مفقود ہو چکی تھیں، بہ حیثیت قوم ان کی کوئی اخلاقی و تمدنی حیثیت نہ تھی، وہی اسوۂ حسنہ ﷺ پر عمل پیرا ہوکر شاہ راہ علم و دانش و ترقی پر گام زن ہوئے۔

اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا پر احسان عظیم کرکے وہ راہ بر انسانیت و معلم عظیم ﷺ کو اس دنیا میں مبعوث فرمایا، جو اپنے ساتھ اسلام کا وہ بادل جو رحمت خداوندی بن کر برسا اور جہاں عرب کے اجڑے دیار میں اس سے بہار آئی، وہیں تمام عالم بھی اس کی خوش بُو سے مہک اٹھا، جس نے دنیا کو ایک نیا دین، نیا تمدن اور نیا معاشرہ عطا کیا، آپؐ کے نگاہ فیض و ابرو کے اشارے سے اس دنیا کا نقشہ چشم زدن میں بدل گیا، مادی، روحانی، دینی، دنیوی، ادبی و فنی دائروں میں انقلاب آگیا۔ یہ انقلاب صرف اس بشر کامل حضرت محمد ﷺ کی وجہ سے آیا جنھیں تاریخ عالم انسانیت کا سب سے بڑا نجات دہندہ مانتی ہے۔

نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ نے 23 سال کے قلیل عرصے میں بنی نوع کو اس معراج ترقی تک پہنچایا کہ تاریخ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آپؐ نے رشد و ہدایت، صلاح و فلاح کی وہ مشعل مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھما دی جس کی روشنی میں انھوں نے صدیوں شان و شوکت سے دنیا پر حکومت کی اور امت کو حضور نبی کریم ﷺ نے وہ الہامی کتاب قرآن مجید دی جو مسلمانوں کی اقتصادی و تمدنی فلاح کے لیے مکمل قانون ہدایت ہے جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہم کبھی راہ ہدایت سے بھٹک نہیں سکتے۔

کروڑوں درود و سلام اس ذات اقدس ﷺ پر جن کی حکمت و دانائی کا ابر گوہر دنیا پر برسا اور جن کی تعلیمات کے نُور سے مشرق و مغرب، شمال و جنوب غرض یہ کہ دنیا کا ہر گوشہ منور ہوا۔ جن کے نور ہدایت سے رہتی دنیا تک دنیا کا ہر چھوٹا بڑا انسان فیض یاب ہوتا رہے گا۔ جب تک آفتاب عالم مشرق سے طلوع ہو کر مشرق میں غروب ہوتا رہے گا، دنیا اس یتیم مکہ و جگر گوشہ آمنہ کے اس اعجاز کو نہ بھولے گی جس نے عالمی تاریخ کے دور ظلمت کو تہذیب و تمدن کے سنہری دور میں بدل دیا۔

سلام اے آمنہ کے لعل! اے محبوب سبحانی

سلام اے فخر موجودات، فخر نوعِ انسانی

ہم اسی راہ بر انسانیت و داعی انقلاب کے امتی ہیں جن کی تعلیمات کے نور سے دنیا کا ہر گوشہ منور ہے۔ لیکن صد افسوس! امت نے آپؐ کی تعلیمات کو فراموش کردیا اس لیے آپ ﷺ کی تعلیمات کا نُور ہونے کے باوجود اب تہی داماں، خالی ہاتھ و بے سر و ساماں، بے اطمینانی، بے سکونی، بے یقینی و ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ قتل و غارت، لوٹ مار، جھوٹ و بے ایمانی کی لعنتوں میں گرفتار ہم اس ایام جاہلیہ کی تصویر بنے نظر آتے ہیں جب عربوں کے پاس نہ راہ ہدایت تھی، نہ ہی حضور کی راہ نمائی کی روشنی تھی لیکن جوں ہی انھیں آپﷺ کی الہامی اسلامی تعلیمات کا نُور ملا وہ منصب امامت پر فائز ہوگئے۔

آج بھی آپ ﷺ کی تعلیمات کی وہی روشنی ہے جو تب تھی، لیکن دنیاوی آلائشیں ہم پر اس قدر حاوی ہوگئی ہیں کہ ہم اسوۂ حسنہ پر عمل کرنا ہی بھول گئے ہیں، اس فانی زندگی کی آسائشیں اکٹھی کرنے میں اخلاقیات کی تمام حدیں پار کرگئے ہیں اور آخرت کی کھیتی پر اپنی بداعمالیوں کا ہل چلا کر اسے بنجر و بے آباد کر دیا ہے۔ بارہ ربیع الاول محض حضور کی ولادت کا دن نہیں بلکہ انسانیت کی سر بلندی و سرخ روئی کا دن ہے جو تمام اہل عالم کو امن، سلامتی، احترام آدمیت و خدا شناسی کا پیغام دیتا ہے اور اس مقدس عہد کی علامت ہے جو ہم نے حضور ﷺ سے کیا، یعنی حضورؐ کی سیرت و کردار اور ان کی تعلیمات، اسوہ حسنہ پر چلنے کا دن ہے۔

یہ دن اسی عہد کی تجدید کا دن ہے، عید میلادالنبیؐ کے موقع پر پاکیزگی، نفاست و روشنی کا اہتمام محض نمائشی نہیں بلکہ اس اندرونی میل کچیل کو صاف کرنے اور اندرونی صفائی کا دن ہے۔ تاکہ ہمارا دل حضورؐ کی تعلیمات کا آئینہ دار ہو۔

آج کے دن اس آخرت کی بنجر و بے آباد زمین پر اپنے اعمالوں کے وہ پھول کھلائیے تاکہ آپ اپنے آپ کو امت محمدی ﷺ کے اہل ہونے کا شرف پا سکیں، اور قیامت کے روز حضور ﷺ کی شفاعت سے بہرہ مند ہو سکیں۔

کی محمدؐ سے وفا تُونے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں